بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران بڑی ڈھٹائی سے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور پاکستان اس کا خواب دیکھنا چھوڑ دے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے داستان تو الگ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے وادی کشمیر کو بدترین قسم کی غلامی میں جکڑ رکھا ہے۔ بھارتی افواج کی آئے دن کی خون آشام کارروائیاں مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کے اجتماعی احساس، ضمیر اور عالمی رائے عامہ کا مذاق اڑا رہی ہیں بھارتی حکومتوں کی ایسی انسانیت سوز کارروائیوں کا مقصد پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ کی نفی کرنا بھی ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس مسئلے کے حل کیلئے پاکستان نے ایک عرصے تک ادارہ اقوام متحدہ سمیت کچھ بڑی طاقتوں پر انحصار کیا۔ مگر پون صدی گزرنے کے باوجود اقوام متحدہ نیک نیتی کا ثبوت دیتے ہوئے کسی ایسے حل کو قریب نہیں لا سکی جو حق خود اختیاری پر مبنی ہو، جبکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اس خطے کو بھارتی چنگل سے چھڑانے کیلئے ایک طویل عرصے کے دوران میں لاکھوں افراد کی قربانیاں دے چکے ہیں یہ سلسلہ بدستور جاری ہے یہ وہی خطہ ہے جسے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ اس سے یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ کشمیری حریت پسند پاکستان کی بقاءکی جنگ میں جام شہادت نوش کر رہے ہیں۔
پاکستان اور اس کے عوام اس مسئلے کا پرامن حل چاہتے ہیں۔ یہ حل اقوام متحدہ کی ان قرار دادوں کے مطابق حق خود اختیاری پر مبنی ہونا چاہیے جس پر بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے واشگاف الفاظ میں صاد کیا تھا۔ پاکستان نیو کلیئر پاور ہوتے ہوئے یعنی طاقت کا استعمال کئے بغیر ان وعدوں کو پورا ہوتے دیکھنا پسند کرے گا جو جموں و کشمیر کے عوام سے کئے گئے تھے۔ لیکن کشمیر کے معاملے پر امن خریدنا پاکستان کی شہہ رگ کو دشمن کے حوالے کرنا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو گا، پاکستان کا بچہ بچہ کٹ مر سکتا ہے مگر ایسے گناہ کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت کو واضح طور پر اس بات کا احساس دلا دینا چاہیے کہ تقسیم برصغیر کے ایجنڈے کی تکمیل کے اس آخری قلعے کے تحفظ کیلئے پاکستان ہر حد تک جانے سے بھی گریز نہیںکرے گا۔ اس سلسلے میں ایسی فضا پیدا کی جانی چاہیے کہ پاکستان سرخم کرنے یا نرم رویہ اختیار کرنے کی بجائے ایٹمی قوت ہونے کی حیثیت سے سینہ تان کر بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارنے کی خو کا اظہار کرے۔ اب وہ دن بس ہوئے جب بھارت اپنی اسلحہ قوت کے زعم میں پاکستان پر اس موقع کی تلاش میں رہتا تھا کہ وہ پاکستان پر جارحیت کا ارتکاب کرے۔ جس کے اب اس کی طرف سے ایل او سی پر جارحیت کی صورت میں آثار نظر آتے ہیں۔ ایل او اسی پر فائرنگ کو وہ سرجیکل سٹرائیک قرار دیتا ہے۔
کہنے کو تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے دیگر ساتھی ہندو منتریوں کی تقلید میں اپنی تقریر میں یہ تو کہہ دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ مگر یہ ہندوتواموقف ان لوگوں کی اقوام عالم کی تاریخ سے ناواقفت اور حقیقت سے فرار کی دلیل ہے۔ یہ تو اکیسویں صدی شروع ہو چکی ہے۔ اس سے قبل بیسویں صدی میں ویت نام کی جنگ آزادی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ویت نام کے بہادر عوام اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے برعکس حالات کو جوں کا توں تسلیم کر لیتے اور ایک گولی چلائے بغیر دنیا کی ایک طاقت ور ترین قوم کے آگے ہتھیار ڈال لیتے لیکن یہ سبق حریت پسند ویت نامیوں کا نہیں تھا اور نہ ہی ایسا سبق رومنوں کے زمانے سے لے کر اب تک کی تاریخ میں ملتا ہے۔
ہندو بنیاﺅںنے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا کہ کسی خطے پر وہاں کے عوام کی مرضی کے بغیر قبضہ قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ نہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قوموں کی آزادی سلب کی جا سکتی ہے۔ کسی مظلوم قوم پر جابر غاصب حکمرانوں کی جارحیت کو ہمیشہ کیلئے کھلی چھٹی بھی نہیں مل سکتی ہے۔ یہ قانون قدرت ہے۔ اگر ہتھیاروں کی برتری کے باعث خون آشام کارروائیوں پر سب کچھ منحصر ہوتا تو دنیامیں کوئی بھی جنگ آزادی نہ لڑی جاتی لیکن تاریخ شاید ہے کہ نہتے عوام نے اپنے خالی ہاتھوں کی مدد سے طاقت ور حملہ آوروں کو شکست دے دی اور چھوٹی قوموں نے دیکھنے میں ناقابل تسخیر فوجوں کے مقابلے میں آزادی حاصل کی۔ جموں و کشمیر کے عوام بھی تاریخ کے اس دھارے سے مختلف یا الگ نہیں ہو سکتے۔
یقیناً بھارت وہ پہلا غاصب حکمران نہیں جو جدوجہد آزادی کشمیر کے حریت پسندوں کے ہاتھوں اپنے تباہی کے انجام سے بچے گا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنے رویوں اور اپنی حکمت عملیوں سے یہ بات واضح کرے کہ کشمیر پاکستان کیلئے ہے اور پاکستان کشمیر کیلئے ہے اس لئے تو جدوجہدآزادی کشمیر کے حریت پسندوں کو پاکستان اور اس کے عوام کی طرف ہر قسم کی سیاسی، اخلاقی، سفارتی امداد ہی نہیں ہر قسم کی ایسی مالی معاونت بھی حاصل ہو گی کہ بھارتی افواج کے بہیمانہ ظلم و تشدد اور گولیوں کی بوچھاڑ میں زخمی اور اپنی بینائی سے محروم ہو جانے والے ہزاروں مردوں عورتوں اور بچوں کے علاج معالجے کے کام آ سکے۔ مقبوضہ کشمیر کے نہتے اور مظلوم عوام پر بھارتی افواج کے مظالم کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک میں دیکھا گیا اور دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے ادارہ اقوام متحدہ یا دنیا کی دیگر انسانی حقوق کے اداروں کی وساطت سے یہ کوشش کی جائے کہ پاکستان اور دیگر دوست ممالک سے ڈاکٹروں سے عبارت طبی مشن بھیجنے کا ڈول ڈالا جائے۔ سفارتی سطح پر ایسی کوششوں صدق دل سے بھرپور انداز میں کی جائیں اس مقصد کے حصول کی خاطر محب وطن، تحریک آزادی کشمیر کی تاریخی اہمیت اور اسکے تفصیلی سیاسی پس منظر سے پوری طرح واقفیت رکھنے والے اہل قلم پر مشتمل ایک بھرپور ٹیم تشکیل دی جائے جو صحیح الخیال افراد سے عبارت ہو اور یہ لوگ تحریک آزادی کشمیر کے مختلف پہلوﺅں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کر کے پاکستان سمیت غیر ملکی اقوام کو بھی روشناس کرا سکیں۔ کیونکہ کشمیر پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ کشمیر کے پاکستان کیساتھ الحاق ہی میں پاکستان کی بقاءاور عوام کی خوشحالی کا راز مضمر ہے۔