”شہادت حسین ؓ کے مقاصد“

جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے ”مغلوب “دیکھیں، جن کے سامنے حدوداللہ پامال ہو رہی ہو، قانون خدا کو کا لعدم قراردیا جا رہا ہو، نظام کفر کے تسلط سے اخلاقی و تمدنی ”فساد برپا “ہو،معاشرے کو بے دینی کی طرف ”دھکیلا “جا رہا ہو،عوامی ”آرائ“ کو پاﺅ ںتلے پامال کر کے شخصی پیروی پر مجبور کیا جا رہا ہو۔تب نواسہ رسول حضرت حسین ؓ کی طرح اعلائے کلمتہ کی سربلندی کے لیے میدان میں اترنا ضروری ہو جاتا ہے۔نواسہ رسول ؓ کی قربانی کی لازوال داستان میں اس کے سوا کیا سبق ہے کہ انسانوں پر انسانوں کی حکومت جب بھی قائم ہوگی انسان ظلم اور فساد کی آگ میں جلنے لگیں گے۔ ہر سال محرم ہمیں یہ یاد دلانے آتا ہے کہ اہلِ ایمان کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی ملوکیت، شہنشاہیت اور آمریت کو قبول نہ کریں اور زمین پر عدل اور اللہ کی حاکمیت کے نظام کو قائم کرنے کے لیے ”سر دھڑ“ کی بازی بھی لگانا پڑے تو دریغ نہ کریں۔امام حسین رضی اللہ عنہ کو یزید سے کوئی ذاتی” پرخاش“ نہ تھی۔ نہ امام عالی مقام کے مقام و رتبہ کے یہ بات ”شایانِ شان“ تھی کہ وہ محض شخصی عداوت کی بنا پر اتنا بڑا قدم اٹھاتے اور اپنی جان کی قربانی کے ساتھ اہلِ بیت کو اتنی شدید آزمائش میں ڈالتے۔ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کا پیغام یہ ہے کہ جب کسی ملک میں ظلم اور فساد بڑھتا ہے تو اس کے ذمے دار اس ملک کے حکمران ہوتے ہیں،لیکن جب ملک پر شہنشاہیت اور چند خاندانوں کی حکومت قائم ہوجاتی ہے ۔جنہیں غریب عوام کی بھوک، علاج اور تعلیم و تربیت کے بجائے اپنے اکاو¿نٹس اور اثاثے بڑھانے اور اپنی سکیورٹی کی فکر لاحق رہتی ہے۔
اِس سال شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کی یاد ہم جن حالات میں منا رہے ہیں، یہ وہ وقت ہے جب کرارض پر ملوکیت و شہنشاہیت نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، پڑوس میں ہندوستان کی فوج نے کشمیر میں کربلا بپا کر رکھی ہے کشمیری عوام پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ان کے چہروں پر گولیاں برسا کر انھیں معذور کیا جارہا ہے ۔دوسری جانب حسینہ واجد کے ناپاک اقدامات نے بنگلہ دیش کو کربلا بنا رکھا ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں کو مولی گاجرکی طرح کاٹاجا رہا ہے ،مسلم دنیا کی روہنگیا مسلمانوں کی کٹی گردنوں پر خاموشی پر افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔شام عراق میں اب بھی کربلا جاری ہے ،شام میں دمشق کا ”بازار حمیدیہ “آج بھی خون میں نہا رہا ہے ۔حمیدیہ بازار مسجد اموی کے صدر دروازے پر ختم ہوتا ہے۔ رسول پاک ﷺکے نواسے حضرت امام حسین ؓاور دوسرے شہد ائے کربلا کے سر مبارک” طشتریوں“ میں رکھ کر اسی ”بازار حمیدیہ“ سے جلوس کی شکل میں ”مسجد اموی“ تک لائے گئے تھے ،جہاں یزید کا دربار لگا۔ اس بازار سے گزرتے ہوئے تاریخی تصورات انسان کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ مسجد اموی میں وہ جگہ جہاںحضرت امام حسین ؓکا سر مبارک رکھا گیا تھا اب وہ ”راس حسین“ کے نام سے منسوب ہے۔اس کے گردونواح میں اب بھی خون مسلم پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے ،
شام میں بد امنی کی صورتحال سے جہاں وہاں کے عوام پریشان ہیں وہاں اس تاریخی ملک میں ملت اسلامیہ کے اہم مقامات اور تاریخی آثاروں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ بشار الاسدکے حامی اور مخالفین اپنے اپنے مقاصدحاصل کرنے کی خاطر ملت اسلامیہ کی ان درخشاں نشانیوں کی بے حرمتی سے دریغ بھی نہیں کر رہے۔ ہر جگہ بہنے والا خون” لاالٰہ الا اللہ “ کے وارثوں کا ہے۔ شہادتِ حسین کے پیغام پر پردہ ڈالنے کے لیے امتِ مسلمہ کو فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارا گیا ہے، کہ کہیں ان کا اتحاد امریکی سامراج اور اس کے کارندوں کے خلاف پھر سے ”جذبہ حسینی“ کو زندہ کرنے کا سبب نہ بن جائے۔امام حسین رضی اللہ عنہ نے سر کٹا کر سبق دیا کہ جو سر کٹ نہیں سکتا اسے جھکنے کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، اور ”کاسہ گدائی“ اٹھانے والے کبھی سر اٹھا بھی نہیں سکتے۔ اب تک کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے۔ کہ جو اصولوں کی خاطر سر کٹانا نہیں جانتے ان کے سر یونہی گاجر مولی کی طرح کٹتے ہیں۔ جب ایمان اور جذبہ جہاد کمزور ہوجائے تو بیرونی دشمنوں کو بہت اسلحہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وقت کے ہلاکو شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں لیکن نہ کہیں مردانِ حق ہیں نہ لا الٰہ کی شمشیریں۔ اور جہاں بے تیغ سپاہی لڑ رہے ہیں اور شجاعت کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں وہاں آج بھی باطل پر لرزہ طاری ہے۔ لیکن ہم جو ایٹمی قوت ہیں، جدید ترین میزائل رکھتے ہیں، ایسی مفتوح قوم ہیں جو لہو بھی بہا رہی ہے اور آنسو بھی۔ شہادت امام حسین ہم سب کو یہ درس دیتی ہے کہ حوصلہ اور عزم کو اپنے اندر پیدا کریں جو حق کی حفاظت کیلئے ضروری ہے اسلام کی سر بلندی کیلئے آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور بتادیا کہ فاسق و فاجر کو پیشوا نہیں مانا جا سکتا ۔اسلام کے اصول تبدیل نہیں ہوئے وہ آج بھی ہم سے اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم خدا کی زمین پر خدا کا قانون نافذ کرنے کی جدوجہد کریں ۔اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیر مخلوق اور عیش دنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...