”خواتین اسلام“ کربلا سے کشمیر تک

Oct 01, 2017

مسرت لغاری ........ فکر جہاں

قارئین! محرم الحرام کا مہینہ جاری ہے اور کون نہیں جانتا کہ اس کے ابتدائی دس دن ابتدائے آفرینش سے لے کر حشر اٹھنے تک کے درمیانی عرصے کے درمیان وہ ایام ہیں جنہوں نے صدیوں کا رخ نواسہ¿ رسول ، جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین ؓ کی دلروز شہادت اور انکے پیاروں، جگر پاروں کی بے مثال ولازوال قربانیوں کی طرف موڑ دیا ہے یہ واقعہ ہماری تاریخ کا بلکہ تاریخ انسانی کا وہ خونچکاںواقعہ ہے جس پر چشم انسان سے لے کر چشم آسماں تک مسلسل خون کے آنسو رو رہی ہے اور جو اس وقت تک تھم نہیں سکتے جب تک کہ امام عالیٰ مقام کے نانا حضور کا دین برحق زمینوں، آسمانوں میں جاری و ساری ہے۔ ایسے غیر معمولی اور عقل انسانی کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والے واقعے کی تکمیل میں خواتین اسلام کا ایک حصہ رہا؟ اگر ہم اس کا تعین کرنا چاہئیں تو یہ امر حقیت سامنے آتی ہے کہ اس حوالے سے ان کی قربانی و ایثار اور صبرو جبر ذات کے ایسے ایسے مناظر سامنے آتے ہیں کہ جن پر اعتبار کرنے کیلئے انسانی دل و دماغ کو بہت زور لگانا پڑتا ہے۔ انکے صبر کا یہ سفر صرف میدان کربلا ہی سے شروع نہیں ہوا بلکہ ان کے اس لازوال کردار کو اگر ہم ظہور اسلام کے ساتھ منسلک کرکے دیکھیں تو سب سے پہلی اور روشن ترین مثال ہمارے سامنے حضرت بی بی ہاجرہ ؑکی آتی ہے جنہوں نے اپنے لخت جگر کو انتہائی شفقت و محبت اور دلار و پیار سے سجا کر اپنے شوہر کے حوالے کرکے کہا تھا کہ جایئے اسے اپنے اندر طلوع حق کے پر نور لمحے کی تائید و تصدیق کے ثبوت کے طور پر راہ حق میں قربان کر دیجئے اس وقت میں ایک ماں نہیں بلکہ رضائے رب پر گردن جھکا دینے والی ایک عاجز و تابعدار بندی ہوں۔
قارئین یہ واقعہ مامتا کی تاریخ کا ایسا انوکھا واقعہ ہے جو سابقہ اور آئندہ صدیوں کی ماﺅں کے صبرو تحمل کیلئے ایک دائمی شمع فروزاں تھا، ہے اور رہے گا۔اسی طرح ناقابل اعتبار، ایثار کی دوسری مثال بے مثال حضرت خدیجہؓ کے حوالے سے تاریخ اسلامی کے صفحات کو پرنور کر رہی ہے جب جواز کائنات سے حق تعالیٰ رابطہ کر چکا تو حضور کی زوجہ محترمہ نے اپنی تجارت کا تمام تر مال منافع بلکہ پورے اثاثے پائے حضور پر وار دیئے کہ ان کی اس دولت کا اکمل ترین مصرف توسیع و اشاعت حق ہے۔
قارئین! اس سے آگے چلیں تو ان کی صاحبزادی خاتون جنت کا ذکر خیر آتا ہے جنہوں نے ایک طرف تمام زندگی چکی پیس کر اپنے ہاتھوں پر چھالے پالے تو دوسری طرف حسنؓ و حسینؓ جیسے دو ایسے لعل پالے کہ جن کی تربیت اور پاک عملی زندگی کے ایک ایک لمحے پر موجودہ چاند دور کا سارا عروج اور ہزاروں یونیورسٹیاں قربان کی جا سکتی ہیں۔ اور آخر میں حرف آخر کے طور پر بات فخر دین اور مان ِایمان ان کی دختر حضرت زینبؓ پر آکر ٹھہرتی ہے جس کے دیدہ خوشاب کے سامنے امام عالی مقام کی شہادت ہوئی اور جن کے ہاتھوں پر انکے سارے پیارے، سارے جگر پارے ایک ایک کرکے پارہ پارہ ہو کر آتے رہے، ایک ایک کرکے کٹتے رہے، شہید ہوتے رہے اور وہ صبرکے ان قیامت خیز لمحوں میں جبر ذات کے ایسے انوکھے مراحل طے کرتی رہیں جو آخر کار دربار یزید میں آکر حسینیت و مظلومیت کو نقطہ عروج تک پہنچانے کا سبب بنے۔ یہ انہی کا نطق کمال تھا کہ شہادت امام حسین ؓکے بعد جنہوں نے دربار یزید میں ایک ایسا بلیغ و وقیع اور پرمغز خطبہ دیا جس پر عقل و نسل انسانی قیامت تک کیلئے دنگ ہے اور رہے گی یہ ایک خاتون کی جرات گفتارو کردار کا ناقابل یقین لمحہ تھا جسے تاریخ نے ہمیشہ کیلئے اپنے سینے میں محفوظ کر لیا اور جس کے حرف حرف کے درد کو تجسیم دینے کیلئے دنیا بھر کے قلمکاروں نے اپنی فکر و دانش کا زور صرف کردیا ہے لیکن اس اگر لمحے کی اہمیت کو مکمل طور پر احاطہ تحریر میں نہیں لا سکے ایک تشنگی کا احساس تاحال جاری ہے شاید آنے والے وقتوں میں اس غیر معمولی خطبے کی اہمیت مزید بڑھے گی بلکہ بڑھتی ہی رہے گی۔ اس خطبے کے حوالے سے ملک کی ممتاز شاعرہ شبنم شکیل نے اپنے غیر معمولی جذبے کو ان الفاظ میں راہ دی ہے....
بیبیاں آئیں ننگے سر نہیں دیکھا جاتا
آنکھ کہتی ہے یہ منظر نہیں دیکھا جاتا
اور یہ کہ:
جان پر کھیلے بنا بات نہیں بنتی ہے
دل ہو مقتل میں تو پھر سر نہیں دیکھا جاتا
جس کی خاطر سے بسائی گئی دنیا ساری
ساری دنیا سے وہی گھر نہیں دیکھا جاتا؟
بہرحال جہاں تک خواتین کی قربانیوں اور صبرو حوصلے کا تعلق ہے تو وہ صرف میدان کربلا سے کربلا تک ہی نہیں بلکہ کربلا سے کشمیر تک مسلسل قربانیاں دے رہی ہیں ۔ حضرت ہاجرؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جگہ گوشوں کو تیار کرکے آزادی کی خاطر سوئے مقتل روانہ کر رہی ہیں حضرت بی بی خدیجہؓ کے ایثار پر عمل کرتے ہوئے اپنا سب کچھ جنگ آزادی پر لٹا رہی ہیں اور حضرت زینب ؓ جیسے صبری اور باکمال لہجے میں ہر فورم پر صدائے حق بلند کر رہی ہیں یوں صبر کا وہ سفر جو دختران اسلام نے شروع کیا تھا وہ اس پر بہادر قدموں سے چل رہی ہیں۔ انشاءاللہ کشمیر کے چناروں کی آگ ضرور بجھے گی، شہدا کے بدن کے ٹکڑے پھول بنکر ہر طرف اپنی خوشبو پھیلائیں گے اور کشمیر ضرور آزاد ہوگا کیونکہ کشمیر ہمارا ضمیر ہے، ہماری شہ رگ ہے اس کے بغیر ہم ادھورے ہیں بے جان ہیں جبکہ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی تمام مسلمانوں نے ذہن میں رکھنی ہے کہ کسی بھی محاذ پر فتح حاصل کرنے کیلئے ان کی بقاءحسینیت میں ہے حسینیت کی بقاءیزید طاقتوں کو نابود کر دینے میں ہے اور یزیدی طاقتوں کو نابود کرنے کیلئے عالم اسلام میں اتحاد کی حد درجہ ضرورت ہے۔ غرضیکہ خواتین کی کس کس قربانی کا ذکر کیا جائے۔ خاص طور پر کشمیری خواتین میدان کربلا میں نہ ہونے کے باوجود جہاں بھی ہیں جیسی بھی حالت میں ہیں اپنے اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں خدا کرے ان کیلئے کربلا کا یہ سفر جلد ختم ہو اور وہ بچوں سمیت آزاد فضاﺅں میں سانس لے سکیں۔ محرم کے مہینے میں ہ زیادہ سے زیادہ قربانیاں دینے کا عزم جوان رکھیں اللہ تعالیٰ اپنے کامیابی سے ہمکنار کرے گا اور وہ کرب و بلا کی اس سرخ حالت سے سرخرو ہو کر نکلیں گی(انشاءاللہ تعالیٰ)

مزیدخبریں