حسین ؓ آج بھی زندہ ہے

حسینؓ آج بھی فخر ہے
حسینؓ آج بھی عزت و شرف کا نشان ہے
حسینؓ آج بھی قابل تقلید ہے
حسینؓ آج بھی زینت تاج مومن ہے
حسینؓ آج بھی محبتوں کا محور ہے
حسینؓ آج بھی بادشاہ ہے
حسینؓ آج بھی دین کی پہچان ہے
حسینؓ آج بھی اسلام ہے
ہر مسلمان کی محبت حسینؓ کیلئے ہے۔ حسینؓ ایمان کا حصہ ہے۔ حسینؓ کی شہادت اسلام کی زندگی ہے۔ حسینؓ فخر انسانیت ہے۔ اسی حسینؓ نے کہا تھا اگر دنیا میں انقلاب لانا چاہتے ہو تو تہذیب نفس کا آغاز خود سے کرو۔ دنیا خود بدل جائے گی۔ افسوس کا مقام ہے ہم حسینؓ کا نام لیوا ان کے قول پر عمل پیرا نہیں بلکہ ہم نے دوسروں پر تنقید کا وطیرہ اپنایا ہوا ہے۔ آپ معاشرے میں کسی طرف بھی نظر دوڑیاں ہم ہر چیز پر تنقید کرتے ہیں‘ لیکن خود پر نظر نہیں دوڑاتے۔ ہم اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ تہذیب نفس کا آغاز خود سے نہیں بلکہ دوسروں سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہی چیز خرابی کی اصل جڑ ہے۔ حسینؓ نے جس تہذیب نفس کا درس دیا‘ اس پر عمل کرنا ہی اصل میں انکی پیروی ہے۔ اگر ہم خود سے سوال کریں کہ کیا ہم حسینؓ کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں تو یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ حقوق اللہ کی بات اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے۔ ہم حقوق العباد کی طرف نظر دواڑیں اور اپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم حقوق العباد کو پورا کرتے ہیں‘ چلیں گھر سے شروع کریں۔ والدین جنہوں نے ہمیں جنم دیا‘ ہمیں پالا پوسا‘ ہماری تربیت کی‘ خود روکھی سوکھی کھائی‘ لیکن ہماری ہر خواہش کو پورا کیا‘ کیا ہم ان کے حقوق پورا کر رہے ہیں۔ہم اپنی شریک حیات کے حقوق پورا کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بہن بھائیوں کے حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ہم اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت ویسے کر رہے ہیں جیسے کرنے کا حکم ہمارے رب نے ہمیں دیا۔ ہم عزیز رشتہ داروں‘ اپنے محلے کے لوگوں کے ساتھ ویسا برتاﺅ کر رہے ہیں جیسے ہمیں ہمارا مذہب اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے۔
ذاتی حیثیت میں ہم سچ بولتے ہیں؟ ہم مظلوم کی مدد کرتے ہیں؟ یتیم اور مسکین کا خیال رکھتے ہیں۔ بھوکے کو کھانا کھلاتے ہیں اور غریب کا خیال رکھتے ہیں۔
ہم اپنے گھر‘ محلے اور شہر کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔
ہم اپنی بہنوں‘ بچیوں کو بھائیوں‘ بیٹوں پر فوقیت تو نہیں دیتے۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں زندگی میں جن پر ہم عمل پیرا نہیں ہوتے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا لازم نہیں سمجھتے۔ سبز اور سرخ بتی کی پروا نہیں کرتے۔ راستہ لینا چاہتے ہیں‘ راستہ دینا نہیں چاہتے۔ قطار میں کھڑا ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ محلوں‘ سڑکوں‘ پر گند پھینک دیتے ہیں۔ صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔
چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ ان پر اگر ہم عمل پیرا نہیں ہیں تو بڑے امتحانوں میں کس طرح حسنیت کا پرچم اٹھا سکتے ہیں۔ کس طرح گروہ حسین کا دعویٰ بلند کر سکتے ہیں۔ چلیئے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے امتحان میں خود کو کامیاب کروائیں‘ لیکن ہم اپنے اپنے مسلک کی حقانیت ثابت کرتے ہوئے بڑے طمطراق کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ اپنے آپ کو علم و دانش کا سب سے بڑا عالم تصور کرتے ہیں اور بحث و تمحیض میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لوگوں کی دل آزاری کو اپنی فتح سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کسی کی دل آزاری ہی سب سے بڑا گناہ ہے۔ .... کا نام تو لیتے ہیں‘ لیکن ہر بات خصوصاً محرم کے دنوں میں انتہاپسندی کا رویہ دکھاتے ہیں۔ انہیں گزشتہ تیس چالیس سال کی سیاسی زندگی میں یہ تحربہ ہوا ہے کہ ہم 90 فیصد اپنے مسائل کے خود ذمہ دار ہیں۔ اگر ہم انصاف پسندی کے ساتھ چلیں‘ جھوٹ نہ بولیں‘ سچ کہیں اور سچ کی گواہی دیں‘ سچے کے ساتھ چلیں‘ تکبر نہ کریں‘ لالچ میں نہ آئیں‘ منفی مسابقت سے باز رہیں‘ کینہ نہ کریں‘ چغلی سے بچیں‘ حرام نہ کھائیں‘ محنت پر یقین رکھیں‘ جلد بازی نہ کریں‘ یقین مانیں ہمارا معاشرہ جنت بن جائے۔ برداشت کی عادت ہمارے معاشرے میں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم کسی کو برداشت نہیں کرتے۔ کسی کیلئے حسینؓ جیسی قربانی کیا دیں؟
زندگی سب سے پہلے انفرادی طورپر بدلتی ہے۔ فرد معاشرے کی اکائی ہے۔ اگر ہر اکائی اپنے آپ سے انصاف کرے اور حسینؓ کی زندگی کے مطابق زندگی گزارنے کی نقل کرے تو معاشرہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ معاشرے کی سطح پر تبدیلی واقع ہوئی تو عالم اسلام میں تبدیلی آئے گی اور اگر آپ عالم اسلام میں تبدیلی لائے تو دنیا تبدیل ہو جائے گی۔ دنیا تبدیل کرنے کیلئے حسینؓ کی زندگی کے مطابق زندگی گزارنی پڑے گی۔ اگر آپ یہ کر سکتے ہیں‘ اگر میں یہ کر سکتا ہوں تو ہمیں مبارک ہو۔ ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو گئے اور اگر نہیں تو پھر ہمیں حسینؓ کے گروہ میں شامل ہونے کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے۔ کم از کم ہمیں حسینؓ کو شرمندہ کرنے کا کوئی حق نہیں‘ ہمارا ہر فعل یزید کی پیروی میں ہو اور نام حسینؓ کا لیں‘ خدارا ایسی منافقت نہ کریں۔ حضرت شمس تبریزی کہہ گئے ہیں کہ مومن شکر کرے وہ کافر نہیں ہے اور کافر شکر کرے وہ منافق نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن