سیّد الشہدا مام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Oct 01, 2017

پیر سید محمد عرفان مشہدی

حبل صداقت، جبل استقامت، روحِ حرّیت، صبر کا قلزم، حقوقِ انسانی کے عرش مقام منبر، سردارِ جوانان جنت امام عالی مقام سیّدنا حسین ابن علی ؓ کی ولادت با سعادت ۳ ہجری مدینة الرسول میں ہوئی۔ آپ کے نانا جان سیّد العالمین حضرت محمد مصطفےٰ ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ رسولِ کریم کی لختِ جگر سیّدہ فاطمة الزہرا ؓ ہیں۔ آپ کے والدِ ماجد مولیٰ المسلمین علی المرتضیٰ شیر خداؓہیں۔ آپ کے تایا جان غزوئہ موتہ کے شہید جنت میں بلند پرواز حضرت جعفر طیارؓ ہیں۔ آپ کے والد گرامی کے سگے چچا اسد اللہ و اسد الرّسول سیّدنا امیر حمزہؓ ہیں۔امام حسین ؓ اللہ جل شانہ کی مخلوق میں سب سے بلند مرتبہ آلِ ابراہیم ؑو آلِ محمد کریم کے فردِ کامل ہیں۔ یقینا بالا نسب ہیں۔آپ کے خاندانِ عالی وقار کی تاریخ ہی اعلاً کلمتہ اللہ کیلئے قربانیوں سے عبادت ہے۔ منیٰ میں حضرت اسماعیلؑ کے ذبحِ عظیم سے لے کر بدر و احد، خندق و حنین سے ہوتے ہوئے کربلا معلّٰی تک سب عشق کی حرارت کا فیضان ہے اور عشقِ الٰہی میں ہجرتیں گھروں کو لٹانا اور سروں کو کٹانا آلِ پاک کا وہ امتیاز ہے جس پر وحی¿ الٰہی کی شہادتیں موجود ہیں۔
صدقِ خلیل بھی ہے عشق ،صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہ¿ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
اس خاندانِ اہلبیت کو گنج شہداءکہنا زیبا ہے جس کے مردان حُر ظلم ،کفر و طغیان کے خلاف برسرِ پیکار جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے ہیں۔ امامِ عالیٰ مقامؓ اس گلشنِ وفا کے وہ گلِ سر سبد ہیں کہ جنہیں حضرت محمد مصطفے نے اپنا پھول قرار دیا۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ دُنیا میں حسنؓ اور حسینؓ میرے پھول ہیں۔ (صحیح بخاری۔ جامع ترمذی) اسی لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت امام حسن و حضرت امام حسینؓ کو سونگھتے اور فرماتے مجھے ان دونوں سے محبوبِ کریم کی خوشبو آتی ہے۔ کیوں نہ ہوتا جب رسول اللہ امام حسینؓ کو وجودِ اطہر کا جزو بلکہ وجود امامِ حسین کو اپنی صفاتِ طیبہ کا ظہور قرار دیتے ہیں۔ حضرت یعلی بن مرّہ ؓفرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت رکھے اللہ اس سے محبت رکھے۔ حسین ؓبچوں میں سے ایک خاص بچہ ہے۔ (جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ)
اس پر علّو مرتبت کا اندازہ سیّد الانبیائفرماتے ہیں حضرت اسامہ بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ میں رات کو کسی حاجت کے لیے کاشانہِ نبوت میں حاضر ہوا نبی کریم نے کوئی چیز جسم اقدس سے لپیٹی ہوئی تھی جسے میں سمجھ نہ سکا جب میں حاجت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے کیا اُٹھا رکھا ہے آپ نے اس پر سے کپڑا ہٹا دیا حسن اور حسین آپکی کمر مبارک پر تھے آپ نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرما جو ان سے محبت کرے۔ (جامع ترمذی) اللہ جل شانہ نے امام حسن و امام حسین ؓ کے جسدِ مبارکہ کو ان کے نانا جان کے وجودِ مطہر سے کامل درجہ مشابہت عطا فرما دی۔ حضرت علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ حسنؓ سر سے سینے تک رسول اللہ کے مشابہ ہیں اور حسینؓ سینہ سے قدمین تک رسول اللہسے مشابہ ہیں۔ (جامع ترمذی)
امامِ حسین عالی مقامؓ ابنِ رسول ہیں خوشبوئے رسول ہیں ،وجودِ باوجود اشبہ با الرسول ہے ان سے محبت رسول اللہ سے محبت
اور رسول اللہ سے محبت اللہ جل شانہ سے محبت اور دُعائِ رسول کریم میں قبولیت ہر قسم کی رکاوٹ سے مبرا ہے کہ حسین پاکؓ کا چاہنے والا اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہو جاتا ہے ۔امام عالی مقامؓ کا نام رسولِ پاک نے رکھا ان کو گھٹی لعاب دہن اقدس کی دی ان کے کانوں میں آذان رسول پاک نے دی۔ سات سال کی عمر مبارک میں آلِ رسول کے امتیازی شعور کے ساتھ رسولِ پاک سے شرفِ صحابیت سماعِ حدیث رسول اس پر مزید روایت حدیث رسول کا شرف ،مکتب فاطمہ کی کرامت اور بابِ شہر علم کی تعلیم و تربیت پائی۔ خلیل اللہ ؑ کے آل ابراہیم کے حق میں یہ دُعا کہ ان کو متقین کا امام و پیشوا بنایا اس شرف کے ساتھ حسین عالی مقام ؓ کا قافلہ سالارِ عشق اور امامِ اوالعزم ہوتا ہی ان کا عالی منصب ہے ،جس پر وہ فائز ہوئے ۔کار زارِ ہستی میں امام عالی مقام ؓنے اس عالی اور نازک منصب کو جس عزیمت سے نبھایا تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہے گی۔ امام عالی مقام ؓنے ملوکیت جبر و استبداد آمریت کے خلاف اپنی مجتہدانہ بصیرت سے سلطانِ جابر کے سامنے کلمہ¿ حق کی بلندی اور ظلم و جور کے عفریت کا پنجہ مروڑنے کی وہ عزیمت دکھا دی جو دورِ حاضر کے عقلی حیلوں بہانوں اور بے عملی کے مارے ذہنوں کی فکر و بحث سے بہت بلند ہے۔نباضِ قوم اقبال اس کا واضح سبب بتا رہے ہیں۔
قافلہ¿ حجاز میں ایک حسین ؓبھی نہیں
گرچہ ہے تاجدار ابھی گیسوئے دجلہ¿ فرآت
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

مزیدخبریں