سینیٹ میں اپوزیشن ارکان نے ضمنی بجٹ میں نئے این ایف سی ایوارڈ کے اجراءکامطالبہ کر تے ہوئے کہا ہے کہ ابھی تو چار دن ہوئے ہیں اور حکومت نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں، دھرنے کی سازش نہ ہوتی توملک ترقی کے حوالے سے کہاں سے کہاںچلا جا تا ،ابھی تک سی پیک کی تفصیلات پارلیمان کے سامنے پیش نہیں کی گئیں لیکن آئی ایم ایف کی ٹیم کو تمام معلومات فراہم کی جارہی ہے ، آئی ایم ایف مذاکرات میں پھر وہی نجکاری کا راگ الاپ رہا ہے ، نجکاری مزدور دشمن اور مزدور کش اقدام ہے ، ایسالگتا ہے کہ حکومت سی پیک منصوبوں پر دوبارہ سوچ رہی ،، سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کرتے ہوئے کیا چین سے پہلے مشاورت کی گئی ، اگر کی گئی تو ان کا جواب کیا تھا ، اتنا بڑا اور اہم فیصلہ کرنے سے پہلے کیا یہ بات لازم نہیں تھی کہ یہ بات پہلے پارلیمان میں زیربحث لائی جاتی ، سعودی عرب کو آفر دی گئی ہے کہ گوادر میں آئل ریفارنری لگادی جائے ، کیا بلوچستان کی صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیا گیا ، یہ صوبائی معاملہ ہے، آرٹیکل 172کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے ، آئی ایم ایف نے پاکستان کابیڑہ غرق کیا، ریکوڈک کےساتھ مذاق نہیں ہونے دیں گے ۔ ایوان بالا میں حزب اختلاف کے سینیٹر میاں رضا ربانی ، مشاہداللہ خان ، چوہدری تنویر ، اور سسی پلیجو سمیت دیگر ارکان نے ضمنی مالیاتی( ترمیمی )بل 2018پر بحث کے دوران اظہار خیال کیا ۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر نے کہا کہ عوام پر روزبم گرائے جارہے ہیں، حکومتی معاملات تب چلتے ہیں جب آپ سمجھیں کہ جو مینڈیٹ ہمیں ملا ہے وہ عوام کے ووٹوں سے ملا ہے ، ہماری حکومت نے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا وہ اپنی صفائیاں دینے خود چل کر آئے تھے اس وقت تحریک انصاف والے کہتے تھے کہ نوازشریف بھارت کے ساتھ پیار محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے ۔ چوہدری تنویر نے کہا کہ یہ بجٹ کیسے بنائیں گے انہوںنے تو عوام کو ذبح کردیا ہے ، ان کی حکومت بن چکی ہے جس طرح بھی بنی ان کو یقین نہیں آرہا ،یہ لوگ کہتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ خودکشیاںکر لیں ، یہ تو چار دن ہوئے ہیں انہوں نے لوگوںکی چیخیں نکال دی ہیں ، ان کو چاہیے کہ پارلیمانی آداب سیکھیں ۔انہوں نے کہا کہ شیخ رشید نے کہا کہ میں دس ہزار نوکریاں دوں گا ، شیخ رشید ایک نوکری نہیں دے سکتا۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو گمراہ کن ہیں جو بار بار حکومت کی طرف سے آتی ہیں ،لفظ بیڑہ غرق اتنا استعمال ہوا ہے کہ اس کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ، کہا جاتاہے کہ 2008میں 6ہزار ارب قرضہ تھا ،2013میں 15ہزار ارب اور2018میں 28ہزار ارب ہو گیا ہے ۔ 2008سے2013تک175فیصدقرضہ بڑھاجبکہ 2013سے 2018تک80بڑھا۔انہوںنے کہا کہ 2013سے2018تک12ہزار میگاواٹ بجلی بنی ، دھرنے کی سازش نہ ہوتی توملک کہاں سے کہاںچلا جا تا ، پہلے پی آئی اے میں 16جہاز تھے اب 32ہوگئے ہیں ، مشاہد اللہ خان نے کہا کہ پلاٹ پر قبضہ کر کے آپ کو چھوڑ دیا اس پلاٹ پر ، چلو اس پلاٹ کی رکھوالی تو ٹھیک طریقے سے کریں نا ۔انہوں نے کہا کہ کرپشن تو ساری دنیا میں ہورہی ہے ، امریکہ میں بھی ہو رہی ہے ۔سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ یہ بجٹ این ایف سی کے بغیرآرہا ہے، سندھ کے حصے میں بھی کٹوتی کی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسترد ڈیموں کی بات کی جا رہی ہے ، نئی حکومت نے بڑے بڑے وعدے کئے تھے ،حکومت کو این ایف سی کا اجراءکرنا چاہیے ، چھوٹے صوبوں کو سیاسی اور معاشی مار دینا بند کرنی چاہیے ۔سینیٹرمیاں رضاربانی نے کہا کہ الیکشن سے پہلے واضح الفاظ میں وزیرخزانہ اسد عمرنے کئی بار فرمایا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے ۔ میاں رضاربانی نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم کے ساتھ حکومت کے مذاکرات چل رہے ہیں ، لگ ایسے رہا ہے کہ جو ٹیم یہاں آئی ہے وہ تحقیقات پر آئی ہے ، کل رپورٹ ہواہے کہ سی پیک منصوبوں کی تمام تفصیل آئی ایم ایف کی ٹیم کو دی جا رہی ہے ، ابھی تک یہ تمام تفصیلات پارلیمان کے ساتھ توشئیر نہیں کی گئی لیکن آئی ایم ایف کی ٹیم کو تمام معلومات فراہم کی جارہی ہے ، آئی ایم ایف مذاکرات میں پھر وہی نجکاری کا راگ الاپ رہا ہے ، نجکاری مزدور دشمن اور مزدور کش اقدام ہے ، ایسالگتا ہے کہ حکومت سی پیک منصوبوں پر دوبارہ سوچ رہی ہے ۔انہوںنے کہا کہ عبدالرازق داﺅد کاایک بیان چھپا کہ کیوںنہ سی پیک کو ایک سال کےلئے روک دیا جائے ، اس بیان کی انہوں نے تردید نہیں کی ، چینی سفیر بھی لاتعداد مرتبہ فاضل وزیرسے مل چکے ہیں، وزیراعظم جب سعودی عرب گئے تو جو باتیں نکل کر آئیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ سعودی عرب بہت سے سی پیک منصوبوں میں شراکت دار بنے گا، سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کرتے ہوئے کیا چین سے پہلے مشاورت کی گئی ، اگر کی گئی تو ان کا جواب کیا تھا ، اتنا بڑا اور اہم فیصلہ کرنے سے پہلے کیا یہ بات لازم نہیں تھی کہ یہ بات پہلے پارلیمان میں زیربحث لائی جاتی ، کہا گیا کہ سعودی عرب کو آفر دی گئی ہے کہ گوادر میں آئل ریفارنری لگادی جائے ، یہ صرف معاشی فیصلہ نہیں تھا ،کیا بلوچستان کی صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیا گیا ، یہ صوبائی معاملہ ہے، آرٹیکل 172کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے ، یہ بھی کہا گیا کہ ریکوڈک سعودی عرب کو دیا جارہا ہے ، آرٹیکل172کے تحت ریکوڈک صوبائی معاملہ ہے ، وفاقی حکومت کیسے اس معاہدے پر دستخط کر سکتی ہے ، سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ خوف وہراس کیفیت ختم کرنے سے ہی سرمایہ کاری آئے گی ، معیشت کوٹھیک کرنے کےلئے ایسا ماحول بنانا ہوگا کہ سرمایہ کار یہاں آنے میں اپنے آپ کو بہتر محسوس کریں۔آئی ایم ایف نے پاکستان کابیڑہ غرق کیا ،حکومت اس کی طرف جا رہی ہے تو بڑا نقصان ہوگا، حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ، حکومت کاروباری اداروں کی نجکاری کرے ۔سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ (ن) لیگ کے دور میں 12ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوئی ، 13ہزار کلومیٹر سڑکوں کا جال بچھایا گیا ، ہماری حکومت نے ہیلتھ کاڑڈ سسٹم شروع کیا ، بھاشا ڈیم کی زمین لی گئی ، (ن) لیگ نے پی ایس ڈی پی کو 300سے بڑھا کر 800بلین کردیا ۔ سینیٹر آغا شاہ زیب درانی نے کہا کہ حکومت نے 455منصوبے پی ایس ڈی پی سے نکال دیے ہیں ، سی پیک کے چار ،گوادر کے 12اور ایچ ای سی کے 45 اور پانی کے 20منصوبے پی ایس ڈی پی سے نکال چکے ہیں ۔ضلع خضدار میں پانی کا مسئلہ حل نہ کیا گیا توایک سال میں لوگ وہاں سے ہجرت کر جائیںگے ۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ مہنگائی کا اثر غریب اور امیر دونوں پر ہوگا ۔ سینیٹرمیرکبیر نے کہاکہ بجٹ میں ہمارے مسائل کا حل نہیں بتایا گیا ، بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے ، خضدار میں کینسر پھیل چکا ہے مگر وہاں کینسرکاکوئی ہسپتال نہیں ہے وہاں کینسر ہسپتال بنایا ہے، ہم بھی اس ملک کے شہری ہیں ، پشین سے کوئٹہ اورمستونگ تک میٹرو کااعلان کیا جائے۔ ریکوڈک کےساتھ مذاق نہیں ہونے دیں گے ،کہا جا رہا ہے کہ گوادرکو مکران سے نکال دیں گے ۔