اغوا ، قتل ، گرفتاری اور جبری گم شدگی، یہ ان سیکڑوں صحافیوں کا مقدر ہے جو شام میں جاری جنگ کی کوریج کررہے ہیں۔انھیں جنگ زدہ شام میں 2011 کے اوائل میں انقلاب کے آغاز کے بعد سے اسی قسم کی صورت حال کا سامنا ہے اور صرف کیمرے ، اسمارٹ فونز اور قلم رکھنے والے صحافیوں کو شام میں جان بوجھ کر حملوں میں نشانہ بنایا جارہا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق شامی مرکز برائے آزادیِ صحافت نے مارچ 2011 میں شامی انقلاب کے آغاز سے اگست 2019 تک آزادیِ صحافت کی 1250 خلاف ورزیوں پر مبنی ایک دستاویز مرتب کی ہے۔ان میں نصف سے زیادہ خلاف ورزیوں کا ارتکاب شامی نظام اور صدر بشارالاسد کی فورسز نے کیا تھا جبکہ اس کے بعد سخت گیر جنگجو گروپ داعش کا نمبر تھا۔مرکز کے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس عرصے میں 452 شامی صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران میں قتل کردیا گیا،ڈھائی سو کو گرفتار یا اغوا کر لیا گیا۔ان میں 36 صحافیوں کے اتاپتا کے بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟اس صحافتی مرکز کے ڈائریکٹر القادی ابراہیم حسین نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ شامی تنازع کے تمام فریقوں نے ثابت کیا ہے کہ جوکوئی بھی سچ بولتا ہے، وہ ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔فرانس میں قائم عالمی غیرسرکاری تنظیم صحافیان ماورائے سرحد (رپورٹرز ود آٹ بارڈرز)نے اپنی گذشتہ سالانہ رپورٹ میں شام کو صحافیوں کے لیے دنیا کا دوسرا خطرناک ترین ملک قراردیا تھا۔شامی مرکز برائے آزادیِ صحافت شامی صحافیوں کی تنظیم کی ایک شاخ ہے۔یہ مرکز صحافیوں کے خلاف حملوں اور معاندانہ کارروائیوں کی سالانہ تفصیل مرتب کرنے کے علاوہ ماہانہ بھی جنگ زدہ ملک میں پریس کی صورت حال سے متعلق رپورٹس مرتب کرتا اور بیانات جاری کرتا ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق شام میں گذشتہ ساڑھے آٹھ سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے دوران میں تین لاکھ 70ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور ملک کی نصف آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔اس وقت لاکھوں شامی ہمسایہ ممالک میں مہاجرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔