بلوچستان کے تمام ڈیمز 3 سال میں مکمل کریں ورنہ کارروائی ہوگی: چیف جسٹس

کوئٹہ (بیورو رپورٹ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ بلوچستان بھر کے تمام ڈیمز تین سال کے اندر مکمل کیے جائیں ورنہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ وندر سمیت صوبے میں زیر تعمیر ڈیمز کی تعمیر سے متعلق سہ ماہی کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے۔ یہ احکامات انہوں نے سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں پانی کی قلت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دئیے۔ بدھ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن نے پانی کی قلت سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں پانی کی صورت حال بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے۔ صوبائی حکومت کو اس کا کوئی ادراک ہے‘ اسکا کوئی سدباب کیا ہے؟۔ ایڈووکیٹ جنرل ارباب طاہر کاسی نے کہا کہ اس وقت صوبے میں شادی کور ڈیم، میرانی ڈیم بھرے ہیں۔ صوبے کے ڈیمز تین سال کے پانی کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کے استفسار پر سیکرٹری پی ایچ ای نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں 5 ڈیمز مکمل ہیں جبکہ4 اگلے سال مکمل ہوں گے۔ صوبے میں 100 ڈیمز کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ 40 ڈیمز مکمل اور 60 پر تاحال کام جاری ہے۔ چیف جسٹس نے احکامات دئیے کہ بلوچستان میں ڈیمز کی کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ یہاں 50 سالہ چیز 5 سال بھی نہیں چل سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہرکام نیب کو نہیں دے سکتے کہ وہ کام کرے۔ جو سامنے کھڑے ہیں یہ ان کا کام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ آپ نے کیسے لوگ رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وندر ڈیم پر کام جلد شروع کیا جائے اور ایک سال کے اندر مکمل کیا جائے۔ صوبے میں بننے والے ڈیمز کی تعمیر سے متعلق سہ ماہی کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی جائے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ کوئٹہ سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر پی ایچ ای کے ٹیوب ویلز سے عوام کو پانی فراہم کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جائے جس کے بعد سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری نے پانی کی قلت کیس کی سماعت تین ماہ کیلئے ملتوی کردی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ وکلاء قانون کے ساتھ ساتھ فلسفے، تاریخ، لیٹریچر کا بھی مطالعہ کریں تاکہ معاملات کو مزید بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔ یہ بات انہوں نے بدھ کو کوئٹہ کچہری میں نوجوان وکلاء میں کتابیں تقسیم کرنے اور کچہری کی تزئین و آرائش شدہ عمارت کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس جمال مندوخیل، بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز، وکلاء تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ قبل ازیں چیف جسٹس گلزار احمد نے کچہری کی تزئین و آرائش شدہ عمارت کا دورہ کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کچہری کی عمارت کو بہتر انداز میں بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ میں جو بھی مقدمات آتے ہیں ان میں زیادہ تر یہیں ختم ہوتے ہیں۔ لوگ ان فیصلوں سے مطمئن ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ پر اگرچہ بوجھ زیادہ ہے لیکن ان کے فیصلوں میںغلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ تاکہ سائلین کو انصاف مہیا ہو سکے۔ اس موقع پر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل‘ بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین منیر احمد کاکڑ، ہائی کورٹ بار کے صدر باسط شاہ، بلوچستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین سلیم لاشاری نے  خطاب کیا۔مزید براں پاکستان بار کونسل نے کوئٹہ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا کہ سپریم کورٹ عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ بہت گھمبیر ہے۔ یہ پورے ملک کا مسئلہ بن گیا ہے۔ لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کیلئے ہائی کورٹس نے بہت کام کیا ہے۔ عدالتوں کی کوششوں سے بہت سے لوگ بازیاب ہوئے۔ اس مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اپنا کردار ادا کریں گے۔ عدلیہ کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہو رہی۔ عدلیہ آزادی سے کام کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ بلوچستان میں پانی کا مسئلہ حل  کرنے کیلئے 700 ڈیم بنائے گئے ہیں۔ پانچ بڑے ڈیمز کی تعمیر سے بلوچستان میں پانی کے مسئلے میں کمی آئے گی۔ میں بنچ اور بار کو ایک سمجھتا ہوں۔ مسائل پر بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ بلوچستان کے آئینی حقوق عزیز ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...