آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان آج کل جنگ ہو رہی ہے۔ فلسطین اور کشمیر کو دیکھ لیں وہاں بے شک جنگ نہیں ہو رہی مگر جنگ سے زیادہ بدتر ماحول ہے۔ روزانہ لوگ مر رہے ہیں۔ ساری آبادی فوجی نرغے میں ہے۔ کشمیر میں تو گلی کوچے شہر و دیہات میں بھارتی فوجی دستے تعینات ہیں۔ روز خون بہہ رہا ہے۔
بہرکیف بات شروع کرتے ہیں نگورنو کارا باخ سے یہ علاقہ آذر بائیجان کا حصہ ہے اس پر آرمینیا والوں نے زبردستی قبضہ کیا ہوا۔ یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ آرمینیائی فوج نے چند روز قبل آذر بائیجان کی سرحد کے پاس فوجی مشقوں کے نام پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اسی بات پردونوں ممالک کے درمیان ٹھن گئی۔ اب تین چار روز ہو گئے، دونوں ممالک کی فوجیں برسرپیکار ہیں۔ آذر بائیجان مسلم اور آرمینیا عیسائی اکثریت والا ملک ہے۔ یہاں چونکہ مسلم ملک غالب آ رہا ہے۔ اپنے مقبوضہ علاقے کو واپس لینے کی کوشش کر رہا تو یکدم اقوام عالم اور اقوام متحدہ والے جاگ اُٹھے۔ انہیں پتہ چل گیا کہ آرمینیا والے خطرے میں ہیں ، نقصان اٹھا رہے ہیں۔ آذر بائیجان اپنا علاقہ واپس لینے کی بھرپور تگ و دو کر رہا ہے۔ اب سب یہ جنگ بند کرانے کی کوشش میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ متنازعہ علاقہ کی سابق پوزیشن بحال رہے اور آذر بائیجان اپنا علاقہ لینے میں کامیاب نہ ہو۔
یہ عالمی اقوام ، اقوام متحدہ کا دوہرا معیار نہیں کہ مسلم ممالک کے بارے میں اس کا معیار کچھ اور غیر مسلم ممالک کے حوالے سے اس کا معیار کچھ اور ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے 72 سال سے اس مسلم اکثریتی علاقے کے لوگ بھارت سے علیحدگی کی جنگ لڑ رہے ہیں، لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں اس پر بارہا بحث بھی ہو چکی۔ اقوام متحدہ یہاں رائے شماری کی قرارداد منظور کر چکا ہے۔ جیسے بھارت اور پاکستان دونوں قبول کر چکے ہیں۔ مگر چونکہ اس میں فائدہ پاکستان یعنی مسلم ملک کو ہونا ہے اس لئے یہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ اقوام متحدہ اور اقوام عالم خاموش ہیں۔ بھارت کی طرف سے آئے روز کنٹرول لائن پر جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے کنٹرول لائن جو حقیقت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر لائن ہے۔ جہاں اقوام متحدہ کے کہنے پر 1948ء میں جنگ بندی ہوئی۔ وہاں اس وقت عملاً بھارت نے جنگی ماحول بنا رکھا ہے۔ یہاں نگورنوکارا باخ سے زیادہ بدتر صورتحال ہے۔ روزانہ بھارتی فوج سول آبادی پر بمباری کرتی ہے۔ جس سے ہمارے کئی فوجی اور شہری شہید ہو چکے ہیں۔ پاکستان جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔اب اگر پاکستان کے حکمران تھوڑی سے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آذربائیجان سے ہی سبق حاصل کریں اور مقبوضہ کشمیر پر جو پاکستان کا اپنا حصہ گردانتا ہے۔ فوجی ایکشن لے تو اقوام متحدہ اور عالم اقوام کا نشہ بھی ہرن ہو سکتا ہے۔ ان کی بند آنکھیں بھی کھل سکتی ہیں۔ یہ بات تو طے ہے نہ اقوام متحدہ نہ اقوام عالم اور نہ ہی بڑی ایٹمی طاقتیں چاہیں گی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہو۔ اس لئے پاکستانی حکمران بے فکر رہیں۔ بس ذرا سی جنبش کریں۔ دیکھیں کس طرح پوری دنیا چوکنا ہو جاتی ہے کہ کہیں دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان کچھ ایسا ویسا نہ ہو جائے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ خود ان ممالک اور عالمی امن کے لیے خطرناک ثابت ہو گی۔ اس لئے کوئی بھی ایسا ہونے نہیں دے گا۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے جواب میں اگر پاکستانی فوج آگے بڑھے اورلداخ میں چین کی طرح بھرپور ایکشن لے تو پھر دیکھیں کس طرح پوری دنیا جنگ کی آگ بجھانے کے لیے دوڑ پڑتی ہے۔اس طرح پاکستان صرف مسئلہ کشمیر کے حل کی شرط پر آگے بڑھ سکتا ہے۔ اپنی بات منوا سکتا ہے۔ کشمیر ویسے بھی فلیش جوائنٹ بن چکا ہے۔ حال ہی میں اس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل دو اجلاس منعقد کر چکی ہے۔ تو پھر کیوں نہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایک کوشش ذرا ہتھیاروں کی زبان میں کی جائے۔ دنیا اپیلوں اور امن کی زبان نہیں سمجھتی۔ ہاں البتہ ایٹمی جنگ کے خوف کی زبان بہت کچھ کروا سکتی ہے اور منوا سکتی ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے منہ توڑ جواب دینے کی بجائے اگر اسکی گردن دبوچی جائے تو زیادہ اچھا رزلٹ سامنے آ سکتا ہے۔ آزمائش شرط ہے۔ یہ مسئلہ کشمیر کے حل کا ایک اچھا آپشن بنا سکتا ہے۔