پولیس کو وردی کا لحاظ نہیں ، کارروائی کیلئے چائے پانی کا انتظار کرتی ہے : چیف جسٹس 

Oct 01, 2021

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ آف پاکستان کا ہزارہ برادری سے متعلق کیس میں کہنا ہے کہ پولیس کے رویوں کے باعث عوام ان پر اعتماد نہیں کر رہی۔ عدالت نے سکیورٹی اداروں کو ہزارہ برادری کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے اقدامات کی ہدایت کردی ہے۔ سپریم کورٹ میں ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمدکی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان اور آئی جی بلوچستان عدالت میں پیش ہوئے۔ آئی جی بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ ہزارہ برادری کے اغوا شدہ چاروں لوگ بازیاب ہو چکے ہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ان لوگوں کو اغوا کس نے کیا تھا،کون ان کو لیکر گیا؟۔ آپ نے کیا کام کیا ہے، یہ تو خود واپس آ گئے ہیں۔ جس پر بازیاب ہونے والے شخص نے کہا ہمارے مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں ہمارے اکاونٹس منجمد ہیں، ہمیں تنخواہیں نہیں مل رہیں، ہمیں شناختی کارڈز کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ نادرا تعاون کیوں نہیں کر رہا۔ ہم سیکرٹری داخلہ کو طلب کر لیتے ہیں، وقفے کے بعد سیکرٹری داخلہ سے پوچھیں گے کیا ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا ہزارہ برادری سرکاری ملازم کے ملازم نہیں بلکہ سرکاری ملازم انکے ملازم ہیں۔ جس کے بعد سیکرٹری داخلہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔ وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت ہوئی تو عدالت میں کوئٹہ سے جبری طور پر گمشدہ شہری علی رضا کی اہلیہ عدالت میں پیش ہوئی اور عدالت کو بتایا کہ میرے شوہر 2013 سے لاپتہ ہیں، جس آدمی پر اغوا کا شک تھا پولیس نے اس کو بری کر دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا آئی جی صاحب یہ کیا ہو رہا ہے؟ جرم کے بعد تفتیش کا دورانیہ محدود ہوتا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے آئی جی پر برہمی کرتے ہوئے کہا سات سال سے ایک شخص لاپتا ہے پولیس نے کچھ کیا ہی نہیں۔ جس پر آئی جی بلوچستان نے کہا2013 کے بعد تین سال کیس لیویز کے پاس رہا، لیویز پولیس کا ادارہ نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا تین سال لیویز کے پاس رہا آپ کے پاس آیا تو کیا کر لیا آپ نے؟ پولیس کی تفتیش میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ بھائی آپ کو معلوم بھی ہے تفتیش کس چڑیا کا نام ہے؟ آئی جی بلوچستان نے کہا ہم بندہ بازیاب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا خاک کوشش کی ہے پولیس نے اب تک، ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے پولیس کا نہیں، وردی کس لیے پہنائی ہے آپ کو؟ آپ کو کسی کا احساس ہی نہیں، عدالت برہمی پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا اگر علی رضا کے اہل خانہ ہم سے تعاون کریں تو تفتیش مکمل کر لیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا شہریوں کو آپ پر اعتبار آئے گا تو یہ تعاون کریں گے، کرائم کے شواہد 24 گھنٹے میں غائب ہو جاتے ہیں، پولیس انتظار کرتی رہتی ہے کوئی ان کا چائے پانی کرے تو یہ کارروائی کریں۔ آپ اس وردی کا لحاظ نہیں کرتے۔ چیف جسٹس نے کہا پولیس کو جو کام سونپا گیا ہے وہ نہیں کرتے کچھ اور کرنے لگ گئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کس قدر ناانصافی کا کاروبار چلا رکھا ہے، ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جو ملزم ہمارے پاس آتا ہے بری ہو جاتا ہے کیونکہ تفتیش نہیں ٹھیک ہوئی ہوتی، سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ 8 سال سے لاپتہ علی رضا کو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیدیا اور شہری کے اغوا میں ملوث کرداروں کو سامنے لایا جائے، عدالت نے کہا علی رضا کہ بازیانی میں کسی سیکورٹی ایجنسی کی لاپرواہی برداشت نہیں کی جائے گی، ہزارہ برادری کے بازیاب 4 افراد کے اغوا میں ملوث کرداروں کو پکڑا جائے، اغوا کاروں کیساتھ قانون کے تحت سخت ایکشن لیا جائے، اور ہزارہ برادری کو پاسپورٹ کے حصول میں مشکلات کا ازالہ کیا جائے، پاسپورٹ کا حصول ہر شہری کا بنیادی آئینی حق ہے کوائف پورے ہیں تو پاسپورٹ کا اجرا کیا جائے،عدالت نے اپنے حکم میں مزید کہابلوچستان حکومت شر پسند عناصر سے آئینی ہاتھوں سے نمٹیں، زبان زد عام ہے کہ بلوچستان میں قانون کو توڑنے والے عناصر موجود ہیں،بلوچستان اور کوئیٹہ شہر میں ہزارہ برادری کے تحفظ یقینی بنایا جائے کیس کی سماعت ایک ہفتہ کے لیے ملتوی کردی گئی۔

مزیدخبریں