مولانا محمد زاہد انور نے قرآن کریم کا ترجمہ فرمایا ہے ۔ مولانا جامعہ عثمانیہ شور کوٹ کے مہتمم ہیں۔ مولانا خلاصہ مفہوم آیات مع منتخب مضامین میں نہایت سادہ اور جامع الفاظ میں پڑھنے والوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئے ہیں۔ اسلام کے اخلاقی نظام کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
اسلام کے نظام اخلاق کا مرکزی نقطہ حسن اعتقاد (عقیدہ کا کفر و شرک سے مکمل پاک ہونا) ہے۔ اس کے بعد اخلاقیاتی لحاظ سے فکر و عمل کی پاکیزگی کا اہتمام ہے جس کا نقطہ آغاز اپنے گھر کے اکابر (والدین) سے حسن سلوک کرنے سے ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے اعتقادی حقائق میں سب سے اہم ترین ضرورت عقیدہ توحید کو بیان کرنے کے متصل والدین کے احترام خاص کو تاکیدی طرز خاص سے ذکر فرما کر ان کی عظمت و احسانی خدمات کو بطور اہتمام عظیم کے اجاگر کیا ہے تاکہ والدین سے لاپرواہی اور بے رخی نیز بدسلوکی و بے احترامی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جائے۔ اسلام نے بڑی عمر کے بزرگوں سے (خواہ وہ کسی بھی قوم یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں) احترام سے پیش آنے کا حکم دیا ہے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے (معاشرے) کے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اس کے بعد درجہ بدرجہ خاندانی افراد صلہ رحمی باہمی قرابت داری اور پڑوسیوں سے غیر معمولی حسن سلوک کا تاکیدی اظہار کیا گیا ہے۔ اسلام اخلاقی تعلیمات اور خیر و بھلائی کی تمام اچھی روایات کا امین ہے۔ صداقت ، امانت ، دیانت اور شرافت کو زندگی کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے جھوٹ، دجل و فریب ، خیانت ، بدعہدی اور منافقت کو صرف نفرت کی نظر سے ہی نہیں دیکھتا بلکہ ان کے ارتکاب پر دنیا میں تعزیر اور آخرت میں سخت سزا کی وعید سناتا ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کے ہر طرح سے اہتمام کا تاکیدی حکم دیتا ہے۔ اسلام کے پاکیزہ نظام اخلاق کی تعلیمات میں انفرادی یا اجتماعی اسراف (ضروریات میں فضول خرچی کرنا) اور تبذیر (بے محل حرام خرچ کرنا) کی سخت ممانعت ہے۔ اس کی تاکیدی ممانعت کا مقصد افراد یا قوموں کو مستقبل کی معاشی بدحالی سے محفوظ رکھنا (بچانا) ہے۔ اسلام کے اخلاقی نظام کے بعض پہلوئوں کا اوامر (احکامات) سے تعلق ہے ا ور بعض کانواہی (ممنوعات) سے ہے۔ اسلام کسی اچھے کام کے بجا لانے کا حکم دیتا ہے تو برے کام سے روکتا بھی ہے۔ مثلاً اخلاق اور حسن سلوک کا حکم دیتا ہے تو بداخلاقی و بدسلوکی کی ممانعت بھی کرتا ہے۔ راہ خدا میں خرچ کرنے ، قریبی رشتے داروں پر خصوصی توجہ دینے کا حکم دیتا ہے تو اپنے ذاتی اخراجات میں اسراف اور تبذیر سے ممانعت کرتا ہے۔ نکاح کی ترغیب دیتا ہے (بلکہ حکم دیتا ہے) تو زناء کے قریب جانے سے روکتا ہے۔ مخصوص حالات میں مخصوص شرائط کے ساتھ کفار سے جہاد وقتال کا حکم دیتا ہے تو باہمی قتل و غارت کو حرام قرار دیتا ہے۔ کسی کو ناحق قتل کرنے کے ظالمانہ اقدام پر قصاص لینے کی اجازت دیتا ہے لیکن قصاص لیتے وقت انتقامی غضب میں کچھ مزید کرنے (ظلم) کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ یتیموں کے حقوق اور پرورش کی نگہداشت کا حکم دیتا ہے لیکن ان کے مال میں غبن و خیانت سے ممانعت کرتا ہے۔ خیر و بھلائی کے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کا تاکیدی حکم دیتا ہے تو بدعہدی پر باز پرس کی سخت وعید (خوف دلانا) سناتا ہے۔ اسلام ناپ تول میں ترازو کے معیار کو ہر طرح سے درست رکھنے کا تاکیدی حکم دیتا ہے اور حکم عدولی پر (نافرمانی کی صورت میں) سخت ترین دینوی و اخروی عذاب کی خبر دیتا ہے۔ اسلام لوگوں کے انفرادی معاملات میں بے جا مداخلت (بلاوجہ جاسوسی / حالات کی جستجو) کو نفرت کی نظر سے دیکھتے ہوئے وقت کا ضیاع اور اس پر اخروی باز پرس کی تنبیہ کرتا ہے۔ اسی طرح فخر و غرور کے قولی و فعلی اظہار کی سخت ترین مذمت کرتا ہے (اور اس بے نتیجہ مشق کو نفرت آمیز عمل قرار دیتا ہے) اور سب سے بڑی بداخلاقی (بلکہ حد درجہ ذہنی و فکری کمینگی) یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے خدائے وحدہ، لا شریک کے ساتھ مخلوق کو شریک و معبود قرار دے تو اسلام اس اخلاقی بگاڑ کو کفر و شرک قرار دیتا ہے۔ یہ اسلامی اخلاقیاتی نظام کے بنیادی خدوخال ہیں ورنہ اس کی تفصیلات و جزیات میں اتنا مواد ہے کہ علمی لائبریریاں تنگ پڑ جائیں۔ تاہم بعض ایسے اخلاقیاتی پہلو جن کا ذکر خود خالق کائنات نے اپنی مقدس کتاب قرآن کریم م یں فرمایا ہے مکمل نہ سہی کچھ کا ذکر تو ہماری نظروں سے گزرنا چاہیے خدا کرے ہمیں توفیق عمل نصیب ہو جائے واضح رہے کہ تہذیب و تعلیم کا حصول بذریعہ علم ہی ہوا کرتا ہے۔ اس لئے علم کے حصول پر تاکیدی زور دیا ہے۔ علم سے زندگی میں حسن اخلاق کا کمال پیدا ہوتا ہے تو حصول علم اسلام کے نظام اخلاق کا لازمی و ضروری حصہ ہے۔ آگے بڑھیے اوامر (ایسے احکام جن کے بجا لانے کا حکم دیا ہے) کی طویل فہرست فراہم کی ہے جو اعتقادات (عقائد) عبادات (فرائض واجبات سنن و مستحبات) و ہر سطح کے کلی معاملات کو محیط ہے۔ اخلاقیات کے فروغ میں وعظ و نصائح کے حکمتی نظام کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اس لئے حکمت و موعظہ کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔ صبر و حلم تحمل مزاجی ، سنجیدگی وقار، شکر و قناعت ، توکل و اخلاص (حسن نیت) امانت دیانت ، معاملات کی شفافیت و صفائی ، وفائے عہد شرافت و صداقت جیسی صفات حسنہ اسلامی اخلاقیات کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ تزکیہ نفس، عدل و احسان ، بڑوں کا احترام ، آداب و تہذیب ہر ایک سے حسن سلوک، اقارب و یتامیٰ پر دست شفقت غریب پروری صلہ رحمی ، باہمی اصلاح و صلح جوئی ، گھریلو معاملات میں میانہ روی ، انفاق فی سبیل اللہ کا اہتمام ، بلا امتیاز انسانیت کے ساتھ رحم دلی اور ضرورت کے وقت خدمت ، دکھی انسانیت کی معاونت اور مسائل کے حل کیلئے اخلاص سے کوشش کرنا جیسے اخلاق فاضلہ کا تاکیدی اہتمام اسلام کا طرہ امتیاز چلا آ رہا ہے۔ اس کے برعکس کفر و شرک کے اعتقادی بگاڑ کو حرام اور باعث (دائمی) ہلاکت و بربادی قرار دیتے ہوئے بداخلاقی بدتہذیبی و بدسلوکی گستاخی و بے ادبی جھوٹ دجل و فریب بدعہدی بہتان بے جا الزام تراشی بدظنی غیبت چغل خوری بغض و حسد بے جا تعصب و تفاخر بزدلی و بے غیرتی رشوت کرپشن سود خوری اور معاملاتی خیانت و دھوکہ (تجارتی بددیانتی سمیت جملہ خیانتیں) ظلم و سرکشی لوگوں کے جائز حقوق یہ ڈاکہ زنی عمومی چوری و ڈاکہ زنی سمیت جملہ گناہ قابل مواخذہ ٹھہرائے گئے ہیں۔ یہ تو ادنیٰ سی جھلک ہے (جس کی مختصر سی جھلک نمایاں کی گئی ہے) ورنہ قرآن و سنت کی تعلیمات کا خلاصہ تزکیہ عقائد و اعمال اور تزکیہ اخلاق و تہذیب ہے۔ اللہ پاک ہمیں اسلامی اخلاقیاتی اقدار کو اپناتے ہوئے اس کے فروغ اور اشاعت کی توفیق عطاء فرمائے نیز باطل تہذیبوں کی اخلاقی بے راہ روی کے نتائج قبیحہ کو اجاگر کرتے ہوئے امت مسلمہ کو اس کی نحوستوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جدوجہد کی توفیق خاص سے نوازے۔ آمین بجاہ سید المرسلین۔