زبیر محمود بی ایس سی آنرز ہے‘ نوکری نہ ملنے پر ڈلیوری بوائے کا کام کرتا ہے۔ اتوار کے روز مجھے بتانے لگا کہ میری پرانی موٹر سائیکل تنگ کرنے لگ گئی تو میں اسے بیچ کر قسطوں پر نئی موٹر سائیکل خرید کرگھر کی طرف جارہا تھا کہ راستے میں پولیس اہلکاروں نے روک لیا۔مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ موٹر سائیکل کا نمبر نہیں لگا اسے بند کردو۔ میں نے کہا ابھی صرف چھ کلومیٹر چلی ہے اور میں قسطوں پر خرید کرلایا ہوں ۔ بتایا گیا کہ بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکل بند کرنے کا حکم ہے ۔ زبیر کے مطابق کاغذات بھی دکھائے کہ آج کی تاریخ میں ہی اس نے خریدی ہے مگر کوئی ماننے کو تیار نہ تھا ۔ پھر میں نے پانچ سو روپیہ مٹھائی کے طور پر دیا تو ایک ہی لمحے میں میری بغیر نمبر پلیٹ ، اَن رجسٹرڈ موٹر سائیکل اس پانچ سوروپے کے عوض قانونی ہوگئی اور مجھے گھر جانے کی اجازت مل گئی ۔زبیر نے بتایا کہ ایک مرتبہ رات گئے بارش میں پولیس نے روک لیا اور کہنے لگے اتنا ہی کھانا لیکرجاتے ہو جتنا آرڈر ہوتا ہے یا کوئی ایکسٹرا بھی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ سارے کا سارا کھانا آرڈر کا ہوتا ہے کوئی بھی چیز زائد نہیں ہوتی ۔ تو مجھے کہا گیا ’’چل فیر دفع ہوجا ۔‘‘
زبیر کی بات سن کرمجھے 2008 ء میں اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ یاد آگیا ۔میں لاہور کے ایک معروف میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ تھا اور ٹی وی چینل کیلئے کام کررہا تھا ۔دفتر کی طرف سے نئی گاڑی ملی اور طریقۂ کار کے مطابق کوئی بھی شخص 500 کلو میٹر تک بغیر نمبر پلیٹ نئی گاڑی چلا سکتا ہے تاہم اسکے بعد قابل گرفت ہے۔مجھے علم نہیں کہ یہ قانون اب بھی موجود ہے یا نہیں کیونکہ اب تو جاپان سے ہزاروں کی تعداد میں استعمال شدہ گاڑیاں آتی ہیں جو ہزاروں کلومیٹر چلی بھی ہوتی ہیں ۔ نجانے ان کیلئے کونسا قانون ہے ۔کیونکہ رجسٹریشن کا پراسس آج بھی دو سے تین دن لے لیتا ہے۔ اس گاڑی پر میں جوہر ٹاؤن لاہور سے گھر کی طرف جارہا تھا کہ راستے میںچند پولیس اہلکاروں نے مجھے روکا اور ایک اہلکار نے مجھے کہا کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ کیوں نہیں لگائی۔ میں نے کہا سامنے گتے کا سٹکر لگا ہوا ہے ۔ ابھی گاڑی نئی ہے‘ دو دن میں نمبر لگ جائے گا کیونکہ لیزنگ کی گاڑیاں پراسس مکمل ہونے میں دو چار دن لے لیتی ہیں ۔پھر میں نے گاڑی کے سپیڈ میٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ سوکلومیٹر بھی نہیں چلی۔مزید بتایا کہ یہ گاڑی میری نہیں بلکہ کمپنی کی ہے تاہم اسے اپنا تعارف نہ کروایا۔ وہ صاحب کہنے لگے جناب ہم تو قانون کی بات ہی نہیں کررہے ہم تو مبارکباد دے رہے ہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے 200 روپیہ نکال کردیا تو موصوف نے فرمایا دو سو میں کیا آتا ہے ۔ میرے ساتھ ایک ڈارئیور اور د و ملا کر ہم کل چا ر بندے ہیں ہمیں تو پچاس پچاس روپے نہیں آتے ۔ کم ازکم 500 تو دے دیں ہم آدھا آدھا کلو مٹھائی لے جائینگے آپ کو دعائیں دینگے ۔ میں نے اس اہلکار کی مبارکباد کے جواب میں پانچ سو روپیہ نکال کردے دیا تاہم مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ مجھ سے مٹھائی لینے والے چاروں باوردی تھے ۔ وردی کی حرمت کا وردی والوں کو احساس نہ ہو تو اور کسی کو کیوں ہوگا۔ کسی پنجابی شاعر کی ایک طویل نظم کا ایک مصرعہ کچھ اس طرح ہے …؎
؎ پولی لبھے یا دھیلی لبھے
کچھ نہ کچھ تاں ڈیلی لبھے
اب تو پولی ،دھیلی کا رواج ہی ختم ہوگیا اور ایک روپے کا نوٹ یا سکہ بھی متروک ہوگیا اور آج چھوٹے سے چھوٹا نوٹ دس روپے کا ہے ۔ ہم نے اپنے بچپن میں پولی یعنی چار آنے اور دھیلی یعنی آٹھ آنے نہ صرف دیکھ چکے ہیں بلکہ ان سے خریداری بھی کرچکے ہیں تاہم آج کی نسل کو اس کرنسی کا کیا پتہ۔ہم نے تو ایک پیسہ بھی دیکھ رکھا ہے جو ایک روپے میں سو پیسے ملتے تھے ۔پانچ پیسے کے ساتھ ایک پیسہ ملا کر آنہ بنتا تھا۔اب یہ سکے اوران کے نام بھی متروک ہوچکے ۔ مگر پولیس کا ’’کچھ نہ کچھ تاں ڈیلی لبھے ‘‘ کا چکر آج بھی اسی شان و شوکت سے جاری و ساری ہے ۔
کسی اور کی بات کیا کریں۔ 2018ء کے انتخابات میں میری والدہ محترمہ جو اس وقت بھی 86 سال سے زائد عمرکی تھیں اور گزشتہ دس سال سے چلنے پھرنے سے قاصر ہیں مگر باقاعدہ ضد کرکے وہیل چیئر پر پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے گئیں ۔ 1971 ء اور 1977ء کے انتخابات کے 41 سال بعد 2018ء میںانہوں نے اپنے ووٹ کا حق بخوشی استعمال کیا ۔ وہ بہت پر اُمید تھیں کہ اب پاکستان کے حالات بہتر ہوجائیں گے اور کرپشن کا خاتمہ ضرور ہوگا ۔ مگر چند ماہ بعد ہی وہ اس حکومت سے مایوس ہوگئیں اور اسی نتیجے پر پہنچ چکی ہیں جس پر 1982ء میں میرے نانا پہنچے تھے ۔ میرے نانا کو انگریزی اخبار پڑھنے کا شوق تھا اور اخبار پڑھ کر وہ باقاعدہ ان خبروں پر تبصرہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے۔’’ عبد الغفارصاحب!ہم تو اپنی زندگی پوری کرچکے ہم نے تو ہونا نہیں ۔ایک بات یاد رکھیں پاکستان بچانا تو اسے انگریزوں کو ٹھیکے پر دے دیں۔’’مُسلا ( مسلمان ) ماتحت بہت اچھا ہے لیکن افسر بہت ہی برا۔‘‘ اسکے پاس کمانڈ کی تربیت ہی نہیں ۔صدیوں سے ’’جی حضوری ‘‘ اسکے خون میں شامل ہے ، اسکی حرص کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اب ہمیں چاہئے ہر محکمے کی سربراہی کسی ریٹائرڈ انگریز کو دے دیں۔پاکستان کو بچانے کا فی الحال تو یہی اکلوتا راستہ ہے ۔‘‘ اب بالکل یہی باتیں میری والدہ کرتی ہیں کہ انگریز دور میں نسبتاً امن تھا جرم کا تصور ہی محال تھا۔عورتیں بازاروں میں بھی اسی طرح محفوظ تھیں جیسے گھروں میں ۔ اب تو لگتا ہے پاکستان جیسے ملک میں اُمیدیں ہوتی ہی ٹوٹنے کیلئے ہیں مگر جس بھونڈے طریقے سے گزشتہ تین سال سے عوام کی اُمیدیں ٹوٹ رہی ہیں ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور اب تو بزرگ کہتے ہیں کہ آج اسی طرح کی مایوسی ہے جیسی مشرقی پاکستان کے علیٰحدہ ہونے کے بعد اس قوم میں تھی ۔
شاکر شجاع آبادی نے کیا خوب کہا تھا۔
؎ اے پاکستان دے لوکو پلیتاں کو مکا ڈیوو
نئیں تاں ایہہ جہیں وی ناں رکھے اے ناں اوں کوں ولا ڈیوو
اس شعرکا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے ۔
’’اے پاک خطے کے رہنے والو ، پلیدوں (ناپاکوں) کو مٹا دو یا پھر جس نے بھی اس کا نام پاکستان رکھا ہے یہ نام اسے واپس لوٹا دو ۔‘‘
٭…٭…٭