دنیا آج کل جس طرح کے حالات کا شکار ہے ایسے میں ہر کوئی صرف اپنے بارے میں سوچ رہا ہے اور کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ اسکے اُٹھائے گئے اقدام سے کسی دوسرے کا نقصان ہو سکتا ہے ، بس سب کے سب ایک دوڑ میں ہیں اور ہر ایک دوسرے کو اپنے پیروں تلے روند کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نفسا نفسی کے دور میں ہمیں صرف اپنا آپ دکھائی دے رہا ہے اور جو ہم سے کمزور ہیں یا کسی صورت پیچھے رہ گئے ہیں انکی نا تو ہمیں پرواہ ہے اور نا ہم انہیں کسی خاطر لاتے ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے اپنی بے پناہ نعمتوں سے نوازہ ہے اور بلا شبہ یہ اللہ کا ایک معجزہ ہی ہے کہ ایک طرف پوری دنیا اسے کھڈے لائن لگانے کے چکروں میں ہے تو دوسری طرف یہ بے شمار شعبوں میں اُبھر رہا ہے اور خود کو پوری دنیا میں نمایاں رکھے ہوئے ہے۔ جہاں ہم عبدالستار ایدھی کی خدمات کو کبھی بھلا نہیں سکتے اور جیسے انہوں نے اپنی پوری زندگی دُکھی انسانیت کے لئے وقف کی اور غریبوں ، یتیموں ، بیواؤں کا دُکھ بانٹا ، یہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ ایسی ہی ایک مثال ڈاکٹر امجد ثاقب کی بھی ہے کہ جنہوں نے 2001ء میں اخوت کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ ایک ایسا بے مثال ادارہ ہے کہ جو ملک میں غربت کے خاتمے کیلئے جدوجہد کر رہا ہے اور اس کیلئے 128ارب روپے سے زائد کے سود سے پاک قرضے فراہم کر چکا ہے ، اسکے علاوہ تعلیم ، صحت اور دیگر شعبوں میں بھی نمایاں خدمات فراہم کر رہا ہے۔30لاکھ سے زائد خاندان اب تک اخوت کے پروگرامز سے مستفید ہو کر اپنی زندگی کو غربت کے اندھیروں سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ایسی ہی ایک اورانوکھی مثال جنوبی پنجاب میں بھی ملتی ہے جسے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ترقی میں باقی صوبہ سے کچھ پیچھے رہ گیا ہے ۔ مگر ایسے میں کچھ لوگ ہوتے ہیں کہ جو ان فرسودہ خیالات اور روش کو اپنانے کی بجائے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ایسے ہی ایک جواں ہمت انسان ڈاکٹر اختر علی کارلو ہیں ،جو ایک ذمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی مگر پھر وہاں پُر آسائش زندگی گزارنے کی بجائے واپس پاکستان آئے اور شعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے۔2012ء میں جنوبی پنجاب کی چھوٹی سی یونیورسٹی این ایف سی ۔آئی ای ٹی کے وائس چانسلر بنے ، مگر پھر اپنی محنت اور لگن سے کچھ ہی سالوں میں اس چھوٹے سے ادارے کو جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی بنا دیا۔
اس ادارے کو پورے پاکستان میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے وہ یہ کہ ادارہ نا تو صوبائی یا وفاقی حکومت سے کوئی فنڈ لیتا ہے اور نا ہی ایچ ای سی یا کسی دوسرے ادارے سے کوئی گرانٹ لیتا ہے، مگر اسکے باوجود گزشتہ دس سالو ںمیں اس ادارے نے جو ترقی کی ہے وہ قابلِ دید ہے، اس ادارے میں 2012ء تک صرف 4شعبے کام کر رہے تھے اب یونیورسٹی میں 25سے زائد شعبوں میں تدریس کا عمل جاری ہے، پانچ ہزار کے لگ بھگ طلباء طالبات اس ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جنہیں سیکھنے اور کام کر نے کیلئے جدید ترین لیبارٹریاں مہیا کی گئیں ہیں، اسکے ساتھ ساتھ انہیں عرصہ میں یونیورسٹی میں بے شمار نئی تعمیرات کی گئیں ہیں، لڑکے اور لڑکیوں کیلئے الگ ہوسٹلز اور وہ سب سہولیات جن کا تصور لاہور ،اسلام آباد اور شاید کراچی کی جامعات میں پڑھنے والے طلباء طالبات بھی کرتے ہوں گے وہ سب یہاں میسر ہے۔ وہیں ایک متوسط ، غریب گھرانے کے بچے کیلئے ممکن نہیں کہ وہ کسی انجینئرنگ یونیورسٹی میں پڑھے کیونکہ انکی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے تو اس یونیورسٹی میں گزشتہ دس سالوں میں فیسوں میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، تا کہ ماں باپ پر بچوں کی اعلی تعلیم کا کوئی بوجھ نا پڑے ۔ اسکے علاوہ حکومت کی جانب سے شروع کردہ احساس پروگرام کے سکالرشپس کے علاوہ یونیورسٹی اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سارے غریب اور ضرورت مند طلباء و طالبات کو مفت تعلیم فراہم کرتی ہے۔ایسے میںیہ بہت اہم ہے کہ وزیراعظم پاکستا ن اور صدرِ پاکستان جناب عارف علوی صاحب اس جامعہ کے ماڈل کا بغور جائزہ لیں اور اسکے بعد اسے دیگر جامعات میں بھی لاگو کیا جائے اور ایسے عناصر کا خاتمہ کیا جائے جو فنڈز اور گرانٹو ںکی مد میں کروڑوں، اربوں روپے لیکر بھی نوجوانوں کو خوار کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پروفیسر ڈاکٹر اختر علی کارلو جیسے لوگوں کی بھی مدد فرمائے تا کہ وہ سامنے آکر ملک کے عام لوگوں کی تقدیر بدل سکیں اور اس مملکت کو دنیا میں ایک ممتاز مقام دلا سکیں۔(آمین)
وزیراعظم اور صدر پاکستان کے نام
Oct 01, 2021