اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کیوبا کی سفارت کار نے جس طرح عالمی ضمیر کو فلسطینیوں کے قتل عام پر بیدار کیا ان کے مسائل کی طرف توجہ دلائی وہ ایک خوبصورت کامیاب سفارتکاری کی عمدہ مثال ہے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی کمیٹی کے جاری اجلاس میں اسرائیلی وفد نے کمال ہوشیاری سے مسئلہ فلسطین سے فلسطین پر اسرائیلی مظالم سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کیلئے اپنے کو بین الاقوامی لعن طعن سے بچانے کیلئے ایک کامیاب حال چلی اور عالمی برادری کے نازی مظالم کے خلاف جذبات کو ہوا دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے شرکا ’’ہولو کاسٹ‘‘ میں مرنے والے یہودیوں کے احترام میں ایک منٹ کیلئے خاموشی سے کھڑے ہوں۔ یہ مغرب میں مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا عام انداز ہے۔یوں اجلاس کے شرکاء نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ اس پر کیوبا کی دلیر اور جری سفارتکار نے فوری ایکشن لیتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں بھی ایسے ہی احتراماً ایک منٹ کھڑے ہوکر خاموش رہنے کی دلیل دی اورایک موثر بیان دیا۔یہ ایسا موقع تھا کہ اسرائیلی سفارتکاروں کے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں وہ نہ انکار کر سکتے تھے نہ اس بارے میں کوئی اختلاف ظاہر کر سکتے تھے کیونکہ اسرائیل کے ہاتھوں بیت المقدس ، غزہ اور دیگرشہروں میں سینکڑوں فلسطینیوں کے حالیہ قتل عام پر عالمی برادری سراپا احتجاج رہی ہے۔ مگر اسرائیل نے کسی کی آواز کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ اب جو اچانک قدرت نے ازخود انتقام لیا اور کیوبا کی سفارتکار نے ان فلسطینی شہدا کے احترام میں بھی ایک منٹ خاموشی اور کھڑے رہنے کی بات کی تو سب نے تالیاں بجا کراس کو سراہا اور احتراماً کھڑے ہوکرفلسطینی شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر اسرائیلی وفد کی شرمندگی دیکھنے والی تھی۔ فلسطین جیسی ایک ابتر صورتحال اس وقت مقبوضہ جموں کشمیر میں بھی جاری ہے۔ 90لاکھ کشمیریوں کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ انکی جان مال اور املاک بھارتی غاصب افواج کے رحم و کرم پر ہے۔ بھارتی فوجی ایکشن میں انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ کشمیریوں کو جعلی فوجی مقابلوں میں مارا جا رہا ہے۔ گھروں کو بارود چھڑک کر جلایا جا رہا ہے۔ ممنوعہ ہتھیار جن پر عالمی کمیشن پابندی لگا چکا ہے ، بے دریغ مقبوضہ کشمیر میں استعمال ہو رہے ہیں۔ کیمیاوی ہتھیاروں اور پیلٹ گنوں کے استعمال کی وجہ سے سینکڑوں کشمیری معذور اور اپاہج ہو چکے ہیں ان میں بچے ، بڑے ، جوان بوڑھے اور خواتین سب شامل ہیں۔ عالمی برادری ، انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس کمشن اور انصاف پسند ممالک اس پر بھارت سے احتجاج کر چکے ہیں۔ مگر بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اسکے بدترین فوجی مظالم آج بھی کشمیر میں جاری و ساری ہیں۔ 2 سال قبل بھارت نے کشمیریوں کی 70 سال سے جاری تحریک آزادی پر کاری وار کرتے ہوئے مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کی وحدت پر کاری وار کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ لداخ کے بڑے علاقے کو براہ راست دہلی کے کنٹرول میں یعنی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ شاید اس طرح وہ اس علاقے میں چین کے ہاتھوں شکست کھانے اور مار کھانے کی خفت مٹانے کیلئے ایسا کرنا ضروری سمجھتا تھا۔ جموں اور کشمیر کو اپنی مکمل ریاست بنا کر زبردستی اسے اپنا علاقہ ڈکلیئر کر دیا جبکہ بین الاقوامی طور پر یہ علاقہ ابھی تک اقوام متحدہ میں بھی متنازعہ ہی ہے۔ اس ظالمانہ اقدام کے ساتھ بھارت نے کشمیر میں فوجیوں کی تعداد میں دو لاکھ کا اضافہ کر دیا۔ یوں اب ہر 9 کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ 5 اگست 2014 ء کے ادغام کے بعد مقبوضہ کشمیر عملاً فوجی محاصرے میں ہے۔ وہاں بدترین کریک ڈائون جاری ہے۔ شہریوں کی آزادیاں سلب کی جا چکی ہیں۔ ذرائع مواصلات پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔ جلسے جلوس مظاہروں پر اظہار رائے پر پابندی ہے۔ مساجد کی تالا بندی کی وجہ سے بڑی بڑی مساجد میں نماز کی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ نوجوانوں کو فرضی مقابلوں میں ہلاک کرکے دہشت گرد ثابت کیا جاتا ہے۔ پاکستان جو اس مسئلے کا بھارت کے علاوہ دوسرا فریق ہے۔ اسکی ہر ممکن کوشش رہتی ہے کہ اس مسئلے پر عالمی سطح پر کچھ ہو عالمی برادری اور اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے مگر بھارت کی موثر سفارتکاری اور بھارتی معیشت کی وسعت اور بڑی مارکیٹ کی صلاحیت پاکستان کی ہر کوشش کی راہ میں دیوار بن جاتی ہے۔ اب تک ترکی اور چین کھل کر بھارت سے کشمیر میں مظالم بند کرنے اور وہاں کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں کرانے کے حوالے سے پاکستان کی بھرپور حمایت کرتے رہے ہیں۔ اب ایک نئی آواز افغانستان کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ جس نے کھل کر مسئلہ کشمیر حل کرنے پر بات کی ہے صرف یہی نہیں افغانستان کے موجودہ حکمرانوں نے میانمار اور فلسطین کا مسئلہ حل کرنے اور مسلمانوں پر مظالم بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کیوبا کی طرح کشمیریوں کو بھی کوئی غیبی امداد میسر ہو جاتی کوئی ملک ان کیلئے بھی بول پڑتا اور وہاں مرنے والے ہزاروں کشمیریوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی کی درخواست کرتا اور اجلاس کے ممبران کھڑے ہو کر ان کشمیری شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے۔ مگر شاید ابھی تک ہماری سفارتکاری اس درجہ کمال تک نہیں پہنچی کہ کوئی ملک کشمیریوں کے حق میں ایسی جرأت مندانہ بات کر سکے اور عالمی برادری کو جھنجھوڑ سکے۔ خدا جانے ایسے کونسے کھلے ثبوت ہیں جو پاکستان عالمی برادری کو پیش کرتا ہے مگر اس کا کسی پتھر دل پر اثر ہی نہیں ہوتا اور کوئی بھی ملک بھارت کی مذمت سے آگے نہیں بڑھتا۔
کشمیریوں کیلئے کسی کیوبا کی تلاش
Oct 01, 2021