لاہور(سپورٹس رپورٹر)سابق کپتان معین خان نے کہا ہے کہ کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے کیلئے کوئی ’پرچی‘ نہیں ہوتی البتہ ’خان‘ ہونا کافی ہے۔ انہوں نے پہلا غیر ملکی دورہ بھی انڈر 19 کرکٹ ٹیم میں شمولیت کے بعد بنگلہ دیش کیا کیا تھا اور انہیں قومی ٹیم میں شمولیت کیلئے کسی ’پرچی‘ کا سہارا نہیں لینا پڑا۔ ایک سوال پر کہا کہ ’کھیل کر کون کرکٹ ٹیم میں سلیکٹ ہوتا ہے’؟ ٹیم میں شمولیت کیلئے ’پرچی‘ نہیں چلتی، البتہ سلیکشن کے وقت سلیکٹرز کھلاڑیوں کو ’پش‘ کرتے اور ان افراد کو ہی (push) کیا جاتا ہے جن میں کچھ نہ کچھ ٹیلنٹ ہوتا ہے۔پنجاب کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں کراچی کے کھلاڑیوں کے کم انتخابات کے سوال پر کہا کہ تھوڑا بہت فرق ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ کرکٹ بورڈ کے ہیڈ آفس پنجاب میں ہونا ہے۔معین خان کے مطابق ماضی میں جب کرکٹ بورڈ کا مرکزی دفتر کراچی میں تھا تو یہاں کے کھلاڑی زیادہ منتخب ہوتے تھے، اب مرکزی بورڈ پنجاب میں ہے تو وہاں کے کھلاڑی بظاہر اکثریت سے منتخب ہوتے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ افواہیں غلط ہیں کہ 1992 کے ورلڈ کپ کی جیت کے بعد عمران خان نے کھلاڑیوں کے حصے کے پیسے بھی ہسپتال کی تعمیر میں لگائے۔ان کے مطابق ورلڈ کپ کی جیت کے بعد ہر کسی کھلاڑی کو اپنا حصہ ملا تھا اور عمران خان نے کینسر ہسپتال کی تعمیر کیلئے الگ چندہ کیا تھا۔ ان کے بیٹے اعظم خان اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر کرکٹ میں ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہیں اپنے والد کے کرکٹر رہنے کا بھی فائدہ ملا ہے اور لوگ انہیں بولتے رہیں گے کہ وہ ’پرچی‘ پر ہی منتخب ہوئے مگر ایسا نہیں ہے۔