اسلام آباد ( نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کو این ڈی ایم اے حکام نے بتایا ہے کہ سیلاب سے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی بڑا چیلنج ہے، 15 اکتوبر تک نقصانات کا سروے مکمل کر دینگے، گیسٹرو کی بیماری سیلاب زدہ علاقوں میں بڑھ گئی۔ چیئر پرسن کشور زہرہ کے زیرصدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کا اجلاس ہوا، اجلاس میں این ڈی ایم اے حکام نے سیلاب پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بارش کا 30 سال ریکارڈ کے مطابق 137 ملی میٹر تک بارشیں ہوئی۔ اس مرتبہ عام روٹین سے 30 فیصد تک بڑھ کر بارش ہونی کی توقع تھی، مون سون سیزن میں 400 فیصد تک زیادہ بارشیں پاکستان میں ہوگئی۔ صوبہ سندھ میں تیس سال میں 123.3 ملی میٹر اوسط بارش ریکارڈ تھی، 160 ملی میٹر کی بارشیں سندھ میں توقع تھی جو 696 ملی میٹر سے زیادہ ہوئی۔ چار سے پانچ ہفتے لگاتار بارش ہوئی جس سے زمین کی پانی جذب کرنیکی صلاحیت بھی ختم ہوگئی۔این ڈے ایم اے حکام کے مطابق اب تک تقریباً طبارشوں سے متاثرہ علاقہ 5.2 ملین ایکڑ ہے،اب تک 7 لاکھ 20 ہزار لوگوں کو ریسکیو کیا، 28 ستمبرتک ڈیٹا کے مطابق 1 ہزار 666 افراد جاں بحق ہوا جس میں 615 بچے شامل ہیں، اب جو اموات ہورہی ہیں وہ گھروں کی چھتیں گرنے سے ہو رہی ہیں، ہم عوامی آگاہی پیغام لوگوں کو بھیج رہے ہیں کہ چھت گرنے سے کوئی اموات نہ ہوں، 12 ہزار 664 افراد زخمی ہوئی ہیں، سندھ میں 8 ہزار 422 افراد زخمی ہوئے، ملک بھر میں 13 ہزار 73 کلومیٹر سڑکیں متاثر ہوئی، یہ مرکزی شاہراہیں ہیں، 410 پل ملک بھر میں تباہ ہوئے ہیں، 105 سمال ڈیمز کو نقصان پہنچا ہے، ملک بھر میں 20 لاکھ گھر متاثر ہوئے، 9 لاکھ 73 ہزار لائیو سٹاک متاثر ہوا، اسوقت ڈائیریا، کالرا اور جلدی امراض پھیل رہی ہیں، بخار اور ملیریا کی دوائی کی اس وقت قلت ہے، کوہستان میں پھنسے پانچ بھائیوں کی موت کا معاملہ کمیٹی میں اٹھا دیا گیا۔رکن کمیٹی محمد ابو بکر نے معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ کوہستان میں سیلاب کے باعث پھنسے پانچ بھائی مددوکے منتظر رہے ، این ڈی ایم اے ان کو ایک جہاز تک فراہم نہ کر سکا، دنیا میں بھی اس سے ملک کی بدنامی ہوئی۔این ڈی ایم اے حکام نے کہا کہ بڑے پیمانے پر تباہی ہوچکی ہے، تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی بڑا چیلنج ہے، پندرہ اکتوبر تک نقصانات کا سروے مکمل کر دینگے، گیسٹرو کی بیماری سیلاب زدہ علاقوں میں بڑھ گئی، جہاز سے سامان پھینکنے کے معاملے پر چیئر پرسن کمیٹی نے این ڈی ایم اے حکام سے مکالمہ کیا اور کشور زہرہ نے کہا کہ متاثرین کو جہاز کے ذریعے سامان پھینگا گیا کیا وہ قابل استعمال رہا، وہ سارے تھیلے پھٹ جاتے تھے عوام کو کیا ملا ہوگا۔این ڈی ایم اے حکام نے کہا کہ ایمرجنسی صورتحال میں ایسا کیا گیا، جہاز کو ایک حد نیچے لا سکتے تھے اس سے نیچے خطرہ ہو سکتا تھا، چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ جہاز کو بچانے کیلئے سامان کے تھیلے اتنی بلندی سے پھینکے وہ سارے پھٹ گئے، این ڈی ایم اے حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس ہیلی محدود تعداد میں ہیں انکو بچانا ضروری تھا۔