لاہور (رفیعہ ناہید اکرام) پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یکم اکتوبر کو بزرگ شہریوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میں بزرگ شہریوں کے مسائل اور حقوق کے حوالے سے شعور بیدار کرنا اور ان کی معاشرے کیلئے خدمات کا اعتراف کرنا ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز، ریلیاں اور کانفرنسیں منعقد ہونگی۔ المیہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں بوڑھے شہریوں کی اکثریت علاج، کفالت، رہائش، ٹرانسپورٹ کے مسائل کا شکار ہے اور وہ پنشن کیلئے سارا سارا دن قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں مگر حکومت کو ان کا کوئی خیال نہیں۔ دوسری طرف محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب کے زیر اہتمام قائم بے سہارا بزرگ شہریوں کے شیلٹر ہوم ”عافیت“ میں مقیم افراد اپنوں کی طرف سے گھر چھوڑ دینے پر مجبور کردینے کے باعث یہاں آئے اور آج بھی ان کی آمد کے منتظر رہتے ہیں مگر کوئی انہیں ملنے یا حال احوال پوچھنے کو نہیں آتا۔ 64 سالہ جمشید سلطان نے بتایا کہ پی آئی اے میں ملازمت کے بعد ریٹائرمنٹ سے ملنے والے واجبات سے بزنس شروع کیا مگر نقصان اٹھایا جس سے گھر بک گیا، بنک کا قرض چکایا، بیوی وفات پاگئی، دو بیٹوں کو ننھیال کے پاس چھوڑا اور یہاں آگیا۔ یہاں سب کچھ ہے مگر اپنوں کی یاد ستاتی ہے۔ سلامت پورہ کی 70 سالہ نورجہاں غیرشادی شدہ ہیں، عمر بھر بھائی بہنوں کے بچے پالتی رہیں مگر بڑھاپے میں سب نے منہ موڑ لیا۔ اب ملنے کیلئے تو چلی جاتی ہیں مگر وہ انہیں اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں۔ 62 سالہ یاسمین ملک نے زاروقطار روتے ہوئے بتایا کہ تمام عمر شوہر کی وفادار رہی مگر اس نے دوسری شادی کرکے مجھے گھر سے نکال دیا، بچے باپ کے ساتھ مل گئے اب سبھی یاد آتے ہیں مگر کوئی ملنے تک نہیں آتا۔ 67 سالہ خواجہ مقصود اور عفت مقصود میاں بیوی ہیں اور چار پانچ برسوں سے عافیت میں مقیم ہیں۔ انہیں کاروبار میں نقصان ہوا، بیٹی کی شادی کردی تو کوئی رشتہ دار اس بزرگ جوڑے کو اپنے ساتھ رکھنے پر تیار نہ ہوا جس پر یہاں رہنا پڑا۔ 62 سالہ سہیل کویت میں الیکٹریشن کاکام کرتے رہے ساری عمر کمائی گھر میں بہن بھائیوں کو بھیجتے رہے مگر جب فریکچر کے بعد وطن واپس لوٹے تو کوئی بھائی انہیں اپنے ساتھ ٹھہرانے پر آمادہ نہ ہوا۔ شادی کی جو ناکام رہی اوراب یہ بزرگ شہری اپنوں کی بیوفائی کا زخم سہہ رہے ہیں۔ 62 سالہ نسیم کو بچوں نے مارپیٹ کر گھر سے نکال دیا تھا مگر پھر صلح صفائی ہوگئی مگر واپسی کی راہ ہموار نہ ہوسکی البتہ بچے انہیں اب عمرے پر بھیج رہے ہیں۔ چونیاں کے 75 سالہ انور بابا کو انکے بیٹوں اور بہوو¿ں نے گھر سے نکال دیا تھا۔ وہ یہاں رہ کر تنہائی میں روتے رہتے ہیں مگر کوئی انکی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھنے کو بھی یہاں نہیں آتا۔ انچارج عافیت ساجد علی نے بتایا کہ ہم ان بزرگوں کا ”بچوں“ کی طرح خیال رکھتے ہیں مگرحقیقی رشتوں کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا۔
بزرگ عالمی دن