پاکستان میں اہلِ سیاست جس وجہ سے سب سے زیادہ بدنام ہیں وہ ان کی منتقم مزاجی ہے۔ سیاست دانوں کا سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی قرار دے کر ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی حد تک چلے جانا ہمارے ہاں معمول کی بات ہے۔ یہ صورتحال عوام کو نہ صرف سیاست اور اہلِ سیاست بلکہ جمہوریت اور جمہوری اداروں سے بھی بددل کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔ انتقامی سیاست کی ایک مثال ایون فیلڈ ریفرنس ہے جس کا فیصلہ سناتے ہوئے جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی رہنما مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو بری کردیا گیا۔ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے مذکورہ کیس میں سزا کے خلاف مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت کی جانب سے 2018ء میں ان کو سنائی گئی سزا کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔ ان اپیلوں پر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ احتساب عدالت نے مریم نواز کو مجموعی طور پر8 سال اور کیپٹن صفدر کو ایک سال کی سزا کا حکم سنادیا تھا۔ فیصلہ سنائے جانے کے بعد عدالت کے باہر موجود کارکنوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور مریم نواز کے کمرہ عدالت سے باہر آنے پر ان کو گھیرے میں لے کر نعرے بازی کی۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اس حوالے سے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی انتقام کا ایک تاریک دور اپنے انجام کو پہنچا اور بے گناہ سرخرو ہوئے۔ عدالتی فیصلے سے جھوٹ، بہتان اور کردار کشی کی عمارت زمیں بوس ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی بریت احتساب کے نام نہاد نظام کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ قومی احتساب بیورو کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ سیاسی قیادت کو اب ہوش کے ناخن لینا ہوں گے اور انتقامی سیاست کا راستہ بند کر کے ملک اور قوم کی فلاح و بہبود پر توجہ دینا ہوگی۔