وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ باہمی اعتماد‘ احترام اور ہم آہنگی کی بنیاد پر دوستانہ روابط کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ امریکہ نے مشکل حالات میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کو چین اور افغانستان کے تناظر میں نہیںدیکھنا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو پاک امریکہ تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے سفارتی تعلقات کی تقریب میںشرکت پر خوشی ہوئی ہے۔ امریکہ پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ ہم دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں۔ ماضی کو بھلا کر سنجیدہ بات چیت کے ذریعے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
ُٓپاک امریکہ تعلقات کی بنیا د تو اسی وقت رکھ دی گئی تھی جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے 1949ء میں امریکہ کا سرکاری دورہ کیا۔ اس سے قبل سوویت یونین کی طرف سے وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو دورے کی دعوت دی گئی تھی جو انہوں نے قبول بھی کر لی تھی‘ تاہم دورے کی تاریخ 14 اگست 1949ء مقرر کی گئی جس پر وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اس دن پاکستان کا یوم آزای ہے ۔اور آزادی کی تقریبات میں ان کی شرکت ضروری ہے۔اسی دوران امریکی صدر ٹرومین نے بھی وزیراعظم پاکستان کو دورہ ء امریکہ کی دعوت دے دی جو انہوں نے بخوشی قبول کی اور اس طرح پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ یہی وہ دور تھا جب عالمی سطح پر سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اورسوویت یونین اور امریکہ کی صورت میں دو کیمپ بن چکے تھے۔ سوویت یونین کی طرف سے پاکستان کو دورے کی دعوت سے امریکہ کو بھی پاکستان کی حیثیت کا احساس ہوا۔ اس سے قبل اس کا زیادہ تر جھکائو بھارت کی طرف تھا اور وہ نئے وجود میں آنے والے ملک پاکستان کو کوئی اہمیت نہ دیتا تھا۔ وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اور ان کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے دورۂ امریکہ کے بعد سے آج تک پون صدی گزر چکی ہے اور یہ تعلقات بدستور قائم ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں تجارت کے فروغ‘ تعلیم و صحت کے پروگرام اور اسلحہ کی خرید کے حوالے سے بہت سے معاہدے کئے۔ علاوہ ازیں امریکہ نے پاکستان کو مالی امداد اورقرضوں کی صورت میں سپورٹ کی۔پاکستان میں آنے والی قدرتی آفات ، زلزلوں ، سیلابوں وغیرہ کے موقع پر امریکا نے پاکستان کی مدد کی ۔حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے پیش نظر موجودہ امریکی انتظامیہ نے پاکستان کو خاطر خواہ مالی امداد دی ہے ۔
بظاہر یہ تعلقات دوستانہ ہی تصور کئے جاتے رہے ہیں‘ تاہم اس عرصہ کے دوران ان تعلقات میں نشیب و فراز بھی آتے رہے اور اتارچڑھائو کا شکار بھی ہوتے رہے۔لیکن ان تعلقات میں خرابی پہلی مرتبہ اس وقت پیدا ہوئی جب ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر امریکہ نے پاکستان کی حمایت میں اپنے جنگی بحری بیڑے کو بھیجنے کا عندیہ دیا‘ لیکن وہ بحری بیڑہ پاکستان کی امداد کو نہ آسکا۔ امریکی حکومت کے اس ناپسندیدہ عمل کو اہل پاکستان نے شدت سے محسوس کیا جس سے دو ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا کو نقصان پہنچا۔ بعدازاں بھارت کے ساتھ ہونے والی دیگر جنگوں میں بھی امریکہ نے پاکستان کا کھل کر ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے امریکہ کے خلاف پاکستان کے عوام میں فطری نفرت کے جذبات پروان چڑھنے لگے۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہوئے ۔جس کی وجہ سے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جاتی رہیں اور جاری امداد بھی روک دی گئی۔ اسی طرح جب پاکستان نے مئی 1998ء میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے نہ کرنے کیلئے امریکی دبائو قبول نہ کیا تو پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی در آئی اور امریکہ نے پاکستان پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں لگوا دیں۔ مزیدبراں بھارت کے کشمیر پر غیرقانونی قبضے اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے کے حق سے تاحال محروم رکھنے میں بھی امریکہ کی مرضی اور شرط رہی ہے۔ جب بھی پاکستان یو این میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتا ہے‘ امریکہ اس کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے اور سلامتی کونسل میں بھی اس مسئلے کے حل کیلئے پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے۔امریکا ہمیشہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکی حکومت کی طرف سے کشمیر کے تنازعہ میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی گئی تھی‘ لیکن اس پر عملدرآمد کی نوبت نہ آسکی۔ امریکہ کو پاک چین دوستی پر بھی تحفظات ہیں کیونکہ وہ چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور ہر سطح پر وہ اس کی درپردہ یا کھلی مخالفت کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ چین کا اس خطے میں اثرورسوخ کم کرنے کی غرض سے وہ بھارت کو استعمال کرتا ہے۔ اسی کی شہ پر بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع کھڑا کیا اور منہ کی کھانا پڑی۔ اب سی پیک نے بھی امریکہ کو پریشان کررکھا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ پاکستان چین کے ساتھ تجارتی معاملات میں اس قدر قریب ہو جائے کہ معاشی طورپر مضبوط ملک بن جائے۔
صرف جنرل ایوب خان ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات قدرے ’ مثالی ‘ رہے ہیں اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان ادوار میں پاکستان امریکا کے مفادات کا محافظ رہا ہے۔
بہرحال پاکستان کی کسی حکومت نے امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ رکھنے کے باوجود امریکہ کے ساتھ بگاڑ پیدا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ البتہ عمران خان کے دور میں پاک امریکہ تعلقات کو اس وقت دھچکا لگا جب وزیراعظم عمران خان کو اس وقت کی اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکال باہر کیا اور عمران خان نے امریکی سازش قرار دیکر عالمی سطح پر اسے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے سلسلے میں جو الزامات عائد کئے‘ ان سب کو حکومت امریکہ نے بے بنیاد قرار دیکر مسترد کر دیا۔ گزشتہ روز بھی پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے عمران خان کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔اگرچہ سابق وزیراعظم کی بیان کردہ سازشی تھیوری دم توڑ چکی ہے لیکن اس سے دو نوں ممالک کے درمیان دوستی کے شیشے میں بال ضرور آگیا ہے۔
موجودہ حکومت دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا کو پھر سے قائم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ امریکا اگرچہ ہمار ا تجارتی شراکت دار ہے جس نے نائن الیون کے سانحہ کے بعد افغانستان میں نیٹو ممالک کے ذریعے شروع کی گئی دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا جس کا پاکستان کو دہشت گردی کی وارداتوں‘ خودکش حملوں اور امریکی ڈرون حملوں میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔لیکن امریکہ کی دوستی اس کے اپنے مفادات ہی کے گرد گھو متی ہے ۔اس وقت روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے دنیا ایک بار پھر دو کیمپوں میں منقسم ہو چکی ہے ۔ ان حالات میں پاکستان کو کسی ایک طرف جھکائونہیں رکھنا چاہیے ۔ ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں ہمیشہ گھاس ہی کچلی جاتی ہے ۔ اس لیے ہمیں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کے لیے متوازن رویہ اختیار کرنا ہوگا ۔امریکہ آج بھی دنیا کی سپر پاور ہے۔ ہمیں اس کی ناراضی مول لینے سے اجتناب کرنا ہوگا ۔ تاہم امریکا کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ خطے میں ایک خوش حال ، مضبوط اور ترقی کی جانب سفر کرتا پاکستان خود امریکا کی بھی ضرورت ہے ۔ امریکا سمیت کسی بھی ملک سے تعلقات میں قومی مفادات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہماری پالیسی ہمارے قومی مفادات کے ہی تابع ہونی چاہئے۔