جنرل قمر جاوید باجوہ کے اعزازات


چند دن قبل بھی میں نے ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ پاک فوج کی سربراہی کرنا اور پھر اس سربراہی میں پوشیدہ امتحانات کو جھیلنا کسی دل گردے والے انسان کے ہی بس کی بات ہے، یہ کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں کہ وہ اتنے مشکل فرض سے نمٹ سکے اور چومکھی جنگ میں وہ مہارت دکھائے کہ مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہو جائیں۔ گزشتہ چھ سال سے ریاست پاکستان کی بنیادی اکائی یعنی فوج کی سربراہی جنرل قمر جاوید باجوہ کر رہے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جیسے لوگ تو چپکے سے اپنے حصے کا فرض نبھاتے رہتے ہیں لیکن یہ ہم جیسے لکھاریوں کا فرض ہے کہ ان کی اس کاوش کو دنیا کے سامنے لائیں اور بتائیں کہ یہ ہیں وہ شخصیت جو پاک فوج کی سربراہی کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے چیلنجز کے ساتھ بھی نمٹ رہے ہیں جو ان کی پیشہ وارانہ زندگی سے ہٹ کر ہیں۔ بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے 1978ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 29نومبر 2016ء کو انہوں نے پاکستان آرمی کی سربراہی سنبھالی اور وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سپاہ کے دسویں سربراہ ہیں جو ایک مقدس مشن کی آبیاری کر رہے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب فوج کی کمان سنبھالی تو دہشت گرد وں کے خلاف ان کی سربراہی میں آپریشن رد الفساد شروع کیا گیا۔ملک کے طول و عرض میں دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروں کے خلاف کامیاب آپریشنزکئے گئے اور جنرل راحیل شریف کا چھوڑا ہوا مشن انہوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اسی آپریشن رد الفساد کی برکتوں سے ملک میں سی پیک جاری ہوا اور گوادر سے لے کر کراچی تک دہشت گردوں کا پیچھا کیا گیا اور انہیں نشان عبرت بنا کر پاکستان کو امن کا گہوارہ بنایا گیا۔ تقریبا چھ سال سے یہ آپریشن جاری ہے جس میں دہشت گردوں کے خلاف لا تعدا د آپریشن کئے گئے ہیں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔پھر جب کورونا وبا نے پوری دنیا کو اپنے لپیٹے میں لیا اور پاکستان میں بھی اس وبا نے اپنے پنجے گاڑے تو پاک فوج نے اپنے سپہ سالار کی ہدایات پر اس موقع پر بھی سول انتظامیہ کی مدد کی اور ملک بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں کورونا مراکز قائم کئے۔ اس موقع پر پاک فوج کی ٹیموں نے لوگوں کو طبی سہولیات مہیا کیں اور اس موذی مرض سے نمٹنے میں حکومت کی مدد کی۔ یہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا وژن ہی ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے بے نیل و مرام خواپس لوٹنا پڑا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان میں پاکستان کے پتے اس خوبصورتی سے کھیلے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سے انخلا کیلئے بھی ان سے مدد مانگنا پڑی۔ انہوں نے سپر پاور امریکہ کو پاکستان کی اہمیت کا احساس دلایا۔کشمیر کا مسئلہ جس طرح جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں اجاگر ہوا اور جس طرح جنرل باجوہ نے مسلح افواج اور پاکستانی قوم کو کشمیر کے مسئلہ پر یکجا کیا ہے اسکے باعث پاکستان کا بچہ بچہ اب کشمیر کے مسئلہ سے آگاہ ہو چکا ہے۔ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کی لہر میں بھی جنرل قمر جاوید باجوہ ہی کا کردار ہے۔پھر ایک طرف سکھوں کیلئے کرتار پور کوریڈور کا قیام جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی دلچسپی کا مرہون منت تھا کہ اس سے ایک طرف تو سکھوں کو پاکستان کی طرف راغب کر کے مودی کو ٹھیس پہنچائی جائے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی اس کاوشوں کی بدولت سکھوں نے عالمی سطح پر خالصتان کے حق میں ریفرنڈ م کرایا ہے جس میں لاکھوں سکھوں نے ایک الگ مملکت کے قیام کے حق میں رائے دی ہے۔پھرجب بھارت نے 2019ء میں پاکستان پر حملہ کرنے کی ناپاک کوشش کی تو یہ قمر جاوید باجوہ کا ہی فیصلہ تھا کہ دشمن سے مرعوب ہوئے بغیر اس کا جواب دیا جائے چنانچہ ان کی ہدایات پر ہی پاک فضائیہ نے بھارت کے طیارے زمین بوس کئے۔ عام انتخابات کا انعقاد، عالمی کرکٹ کو واپس پاکستان میں لانا، شہیدوں کے گھروں پر حاضری، تہواروں کے موقع پر اپنے سپاہیوں کے ساتھ دن گزارناجنرل باجوہ جیسی متحرک شخصیت ہی کا کام ہے اس لئے تمام لوگ حیران ہیں کہ ایک آدمی یہ سب کچھ کیسے کر لیتا ہے۔ پھر جنرل قمر جاوید باجوہ کی کاوشوں سے ہی ملٹری ڈپلومیسی کی بدولت سعودی عرب اور یو اے ای پاکستان کی امداد پر راضی ہوئے۔جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان آرمی کے پہلے ایسے سربراہ ہیں جن کو چھ مختلف دوست ممالک کی جانب سے بہترین خدمات پر اعلیٰ اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے ’’آرڈر آف یونین‘‘ میڈل سے نوازا۔ یہ اعزاز دو طرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے جنرل قمر جاوید باجوہ کے نمایاں کردار کے اعتراف میں دیا گیا۔ اس سے قبل سعودی ولی عہد اور نائب وزیر اعظم محمد بن سلمان نے انہیں ’’کنگ عبدالعزیز میڈل آف ایکسیلنٹ کلاس‘‘ سے نوازا تھاجبکہ 2021 میں بحرین کے ولی عہد کی جانب سے ’’بحرین آرڈر (فرسٹ کلاس) ایوارڈ‘‘ دیا گیا اور2019ء میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے بھی ’’آرڈر آف ملٹری میرٹ‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اسی طرح روسی سفیر نے آرمی چیف کو 2018ء میں ’’کامن ویلتھ ان ریسکیو اینڈ لیٹر آف کمنڈیشن آف رشین مانیٹرنگ فیڈریشن‘‘ کا اعزاز دیا۔ قبل ازیں 20 جون 2017ء کوآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ترکی کے ’’لیجن آف میرٹ ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ان کو ملنے والے یہ اعزازات نہ صرف پاک فوج کی صلاحیتوں کا اعتراف ہیں بلکہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے پیشہ وارانہ کیریئر میں وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جو ان کے بعد آنے والوں کیلئے ایک مشعل راہ بن چکا ہے۔

ای پیپر دی نیشن