عموماً بچپن میں بچوں کو کہانیاں سنانے کی ابتداء’کوے اور چڑیا‘ کی کہانی سے ہوا کرتی تھی۔ کوے اور چڑیا کی دوسرے پرندوں کے مقابلے میں گھروں میں زیادہ آمدورفت اِس پذیرائی کی وجہ ہو سکتی تھی۔ شاید اِسی لئے چھوٹے بچوں کو دوسرے پرندوں کی نسبت اِن کے ناموں اور عادات سے زیادہ واقفیت ہوتی تھی۔ہمارے ہاں انگریزی لفظ zoo کو اردو میں چڑیا گھر کہہ کر چڑیا کو جبکہ مشہور زمانہ کہانی crow Thirsty کو شاملِ نصاب کرکے کوے کو افادیت اور فوقیت بخشی گئی۔ اردو اور پنجابی شاعری میں بھی کوے اور چڑیا کا تذکرہ ملتا ہے۔ اتنی تکریم کے باوجود اِن دونوں پرندوں کی تعداد میں بتدریج کمی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ اگر چڑیا جسامت میں کوے جتنی بڑی ہوتی اور کوا چڑیا کی طرح حلال ہوتا تو شائید اب تک اِن دونوں کی نسلیں مَعد±ومِیَت کے خطرے سے دوچار ہو چکی ہوتیں۔نسل کی مَعد±ومِیَت سے یاد آیا، چولستان میں ریت کے ٹیلے برسات کے موسم میں ان گنت خود رو جھاڑیوں، پودوں اور مختلف انواع کی گھاس سے مہک اٹھتے تھے۔ مویشیوں کے ریوڑ اپنی بھوک مٹا چکتے تو گلہ بانوں کے چہروں پر ایک دلفریب سی مسکراہٹ رقص کرنے لگتی۔ ’لانہ‘ اور ’پھوگ‘ نامی دو جھاڑی نما پودے ریت کے ٹیلوں میں نشو و نما پا کر اپنی خاص پہچان رکھتے تھے۔ برسات کے موسم میں انکی لمبی لمبی اور دور دور تک پھیلی مضبوط جڑیں خشک سالی کے بقیہ عرصے کی خوراک کا ذخیرہ کر لیا کرتی تھیں۔ مافیا نے پہلے ان دونوں کا خاتمہ کیا اور پھر انکی جڑیں نکال کر بیچ کھائیں۔ اب ’لانہ‘ اور ’پھوگ‘ ملکی معیشت، سیاست، صحت، امن و امان اور انصاف کی طرح بھولی بسری یاد کی صورت میں ذہنوں میں موجود ہیں۔بات ہو رہی تھی پرندوں کی، پرندوں کو کائناتِ قدرت کی صحت کا پیمانہ اور ماحولیاتی نظام کا انجینئر کہا جاتا ہے۔ یہ پودوں کی افزائش کیلئے جگہ جگہ بیج پھیلاتے، زیرگی کرتے اور مردہ جانداروں کو کھا کر ماحول کو صاف رکھنے کا موجب بنتے ہیں۔ پرندے اشرف المخلوق کے شوقِ شکار کی بھینٹ چڑھ کر تعداد میں کم ہو رہے ہیں۔ شکاریوں کی شوقین مزاجی کا شکار زیادہ تر وہ پرندے ہوتے ہیں جو موسم سرما میں برفانی علاقوں سے ہجرت کرکے مختلف ملکوں میں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، آتے ہیں۔ ان پرندوں میں تلور، کونج، بھگوش، چارو ، چیکلو، لال سر، بنارو، چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔ یوں تو ہجرتی پرندوں کا عالمی دن ہر سال اقوامِ متحدہ کے ان مخصوص دنوں میں شامل ہے جو ہر برس دو بار مئی اور اکتوبر کے دوسرے Saturday کو منایا جاتا ہے۔ بالکل اسی انداز میں جس طرح لیبر ڈے، فادر ڈے، مادر ڈے وغیرہ منائے جاتے ہیں۔حیران ہوں کہ اِس معتبر ادارے کو ابھی تک ”مادر اِن لا ڈے“ منانے کا خیال کیوں نہیں آ سکا؟
سابقہ وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے 20 جون2021 کو پیشین گوئی کی تھی کہ اگلے الیکشن میں فواد چوہدری ہجرتی پرندوں کی طرح کسی اور پارٹی میں ہوں گے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو اتنا زیادہ سمجھنے لگے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ شکر ہے کہ ناصر حسین شاہ نے پرندوں سے تشبیہ دے کر اپنی برادری کا بھرم رکھ لیا ورنہ تو ”چھانگا مانگا“ کے دنوں میں انہیں ٹریڈنگ ہارس، لوٹا اور نہ جانے کن کن ناموں سے پکارا جانے لگا تھا۔ دیکھا جائے تو ہجرتی پرندوں اور پارٹی بدل سیاست دانوں میں مثالی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ہجرتی پرندے اپنی جان اور اپنی نسل کی بقا کیلئے ہجرت کرتے ہیں اور یہی فریضہ ہمارے سیاست دان بھی سر انجام دیتے ہیں۔ ہجرتی پرندے یہ مشقیں موسم کے قہر اور سیاست دان یہ مشقتیں حالات کے جبر کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اگر خوبصورت بدیشی تلوریں ہماری سفارتی حرمت پر عربی شہزادوں کے نوک خنجر پر رسمِ قربانی نبھا رہی ہیں تو سیاسی پکھیروو¿ں کو بھی بسا اوقات کسی آستانے کی حرمت پر قربان ہونا پڑتا ہے۔ سانحہ 9 مئی کے بعد کس طرح پنچھی، تحریکِ انصاف کے بنیرے سے ا±ڑان بھر کر دو نئی حویلیوں کی منڈیروں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔یہ 18۔2017 کی بات ہوگی۔ میں پروفیسر الیاس قریشی کے ہاں ا±نکی والدہ کے انتقال پر تعزیت کیلئے گیا تو ایک سیاستدان کو وہاں پہلے ہی سے موجود پایا۔ موصوف پیپلز پارٹی کے دور میں صوبائی اور ق لیگ کے زمانے میں وفاقی وزیر رہنے کا تجربہ حاصل کر چکے تھے۔ ان دنوں عمرانی پوشاکیں پہننے کا فیشن عروج پر تھا۔ ایک مشہور مال پر الیکٹیبلز کو دھڑا دھڑ یہ برانڈ ٹرائی کرایا جا رہا تھا۔ موصوف سے پی ٹی آئی میں شمولیت کے حوالے سے پوچھا تو فرمانے لگے، ”ایک دفعہ پارٹی بدلنے کا گناہ کر بیٹھا ہوں، دوبارہ نہیں کروں گا“۔ ابھی تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ا±ن کی پی ٹی آئی میں شمولیت کی خبریں چھپ گئیں۔ یوں وہ واقعی ایک گناہ اور کر بیٹھے، منٹو کے افسانے اور ہدایت کار حسن طارق کی فلم ”اِک گناہ اور سہی“ کی طرح۔ موسم گرما رخصت ہوا چاہتا ہے اور موسم سرما کی آمد آمد ہے۔ اِن دنوں ہجرتی پرندے لمبی اڑانیں بھرنے کے پروگرام ترتیب دے رہے ہوں گے۔ اِدھر پاکستان میں تیزی سے بدلتی سیاسی فضا بھی پر آشوب ہنگاموں کی نوید سناتی نظر آ رہی ہے۔ الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات منعقد کرانے کے اعلان کے ساتھ ساتھ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست بھی جاری کر دی ہے۔ دو نئی سیاسی جماعتوں کے جنم لینے کے بعد تیسری بھی ویٹنگ روم میں موجود ہے۔ اِن حالات میں چناو¿ نزدیک آنے پر بعض سیاسی پرندے نقل مکانی کرنے کیلئے ایک اور چانس کے منتظر ہیں۔تیزی سے بدلتے منظر نامے میں عمران خان، چوہدری پرویز الٰہی اور شیخ رشید احمد مکافاتِ عمل کا شکار ہیں۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے نیب قوانین کے متعلق پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کالعدم قرار دے دی ہیں۔ نئے چیف جسٹس نے حلف اٹھا کر اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ تین رکنی ریگولر بینچ نے حکومت سے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد رپورٹ طلب کر لی ہے۔ گیلپ سروے کی رپورٹ بھی خاصی دلچسپ ہے۔ شہباز شریف شہرِ ا±مِ جمہوریت میں قابلِ ذکر عرصہ گزارنے کے بعد پاکستان آتے ہی الٹے پاو¿ں پھر ا±نہی راہوں سے واپس پلٹ گئے ہیں۔21 اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اِن حالات میں پی ٹی آئی کو اپنے مستقبل کی، پیپلزپارٹی کو 90 دن میں انتخابات کرانے کی، ن لیگ کو نیا بیانیہ بنانے کی جبکہ افلاس زدہ عوام کو اپنے بقا کی فکر کھائے جا رہی ہے۔