مذہبی، روحانی پیروکاروں کو ہمیشہ د±نیاوی بادشاہوں پر فوقیت حاصل رھی ھے۔ صلیبی جنگوں کے اختتام تک یورپ میں تمام طاقت اور اختیارات کا سرچشمہ مرکزی کلیسا ھی تھا۔ دنیا میں عیسائیت کے بعد سب سے بڑا مذہب اسلام ہے ۔ حضور نبی کریم کے وصال کے بعد قائم ہونے والی اسلامی خلافت بھی تقریباءآدھ صدی تک روحانی مناصب کے ساتھ زمینی حکمرانوں کا تقرر بھی کرتی رھی۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ حکومتیں اور مذہب الگ الگ کر دئیے جاتے رہے۔ لیکن مذہبی ، روحانی ہستیوں کا مقام و مرتبہ ھمشہ د±نیاوی بادشاہوں سے برتر رہا۔ ہر دور میں بادشاہ اور حکمران ، د±نیاوی جاہ و منصب کے لیے بز±رگان دین کی خانقاہوں اور درگاہوں پر حاضری دیتے رہے۔ اسلامی خلافت کی حدیں براعظم ایشیاءمیں، پورے عرب ممالک سے لیکر یورپ تک اور ھندوستان میں سندھ کے کچھ حصے تک پھیلی ھوئی تھیں۔ جبکہ روسی ریاستیں اور پاک و ہند ان کی عملداری سے باہر تھے۔ جہاں تب تک اسلام نہیں پھیلا تھا۔
عرب میں ا±موی دور حکومت کے دوران جب اہل بیعت ، صحابہ اور سادات پر زندگیاں تنگ کر دی گئیں تو قتل و غارت سے جانیں بچانے کے لیے ا±نکے پاس جائے پناہ صرف روسی ریاستیں اور ھندوستان ھی تھا ، کیونکہ باقی تمام خطے ا±موی حکمرانی کے زیر اثر تھے۔ لہذا صحابہ اور سادات کی بہت بڑی تعداد نے بلخ و بخارہ اور پاک و ھند کی طرف ھجرت اختیار کر لی۔ جن کی آمد سے یہ خطے بھی اسلام کی روشنی سے جگمگانے لگے۔ وہی اسلام کی اصل شکل تھی جو یہ صحابہ اور سادات اپنے ساتھ لیکر آئے تھے ؛ جن کی نسلوں سے بعد میں سینکڑوں ق±طب ، ابدال اور اولیاءپیدا ھوئے۔
اولیاء اللہ کی خانقاہیں ، اسلامی ر±شد و ہدایت کی یونیورسٹیاں تھیں جہاں پر بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب ، خ±دائے بزرگ و برتر کی طے کر دی گئی انسانیت کا عملی درس دیا جاتا تھا جس سے متاثر ھو کر لاکھوں لوگ جوق در جوق اسلام قبول کر لیتے تھے۔ وقت کے بڑے بڑے طاقتور بادشاہ اور حکمران ان کی چوکھٹ پر حاضریاں بھرتے ، م±رادیں پاتے اور خلعتیں ان خانقاہوں کے نام کرتے رھے۔
پاکستان میں بھی اولیاءاللہ کے ایسے سینکڑوں مزارات موجود ہیںجو ایک سو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی روحانیت کے بہت بڑے مراکز ھیں جن کی زیادہ تر تعداد پنجاب میں ہے۔ اکثریتی مزارات کی دیکھ بھال ، انتظام و انصرام ، بلا تفریق اسلام کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ کے لیے صوبائی اوقاف کا ایک پورا محکمہ موجود ھے جو بغیر کسی حکومتی بجٹ کے ان مزارات کی آمدن سے ہی کام کرتا ھے جن کی آمدن کا ذریعہ بھی صرف چند مزارات ھیں اور دیکھ بھال سینکڑوں مزارات اور مساجد کی کرنی ہوتی ہے۔ اس لیے بغیر کسی حکومتی امداد کے ان درگاہوں کی تعمیر و مرمت ، توسیع اور تزئین و آرائش ممکن نہیں ہے۔
پاکستان میں تقریباءتمام حکمران فیوض و برکات کیلئے ان درگاہوں پر حاضریاں تو دیتے رہے لیکن اکثر حکمران اِن مزارات پر آنے والے لاکھوں زائرین کی سہولتوں کے لیے کبھی کوئی عملی قدم ا±ٹھانے کی سعادت حاصل نہ کر سکے۔ جبکہ یہ پورا خطہ آج بھی ا±ن اولیاءاللہ کی خدمات کے باعث ہی مشرف بہ اسلام اور مملکت اسلام ہے۔ یہ بزرگان دین اسلام کی شناخت تھے۔ آج بھی لاکھوں لوگوں کا شہر لاہوت سے لاھور اور پھر داتا کی نگری کہلاتا ہے ، اجودھن سے پاک پتن اور شہر فرید ہے ، دیو گڑھ سے ا±چ شریف اور ملتان مدینتہ اولیاءہے۔ جہاں سے اسلام کی کرنیں پھوٹتی ھیں ، ان مزارات پر 24 گھنٹے قرآن پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے ، د±کھی انسانیت کے د±کھ درد کا مداوا ھوتا ھے ، اور لاکھوں زائرین دن رات کے ہر لمحے وہاں تلاش حق اور قلبی سکون کی جھولیاں بھرتے ہیں۔
پنجاب کو اس وقت ایک ایسی نگران حکومت میسر ھے جس کی چند ماہ کی کارکردگی کئی منتخب حکومتوں کی کئی سالوں کی کارکردگی سے بہت آگے دکھائی دے رھی ھے۔ نگران وزیر اعلی پنجاب سید محسن نقوی نے صرف 8 وزراءاور دو مشیروں کے ساتھ پنجاب میں ایسا انقلاب برپا کر دیا ہے کہ ، گندم کی خریداری پر اربوں روپے کے سود سے چھٹکارا ھو یا کچے کے وحشی ڈاکووں کا صفایا۔ جو ریاست کے اندر کئی سالوں سے سو میل کی ریاست بنا چکے تھے ، پنجاب بھر کے ہسپتالوں کی حالت زار میں بہتری ھو یا لاھور کے اندر زیر تعمیر سڑکوں اور فلائی اوورز کی بر وقت تعمیر ، ا±نہوں نے ہر جگہ اپنی بہترین کارکردگی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ ساتھ اچھے ٹیم ورک کی ایسی مثال بھی قائم کر دی ھے کہ آج سیکرٹریٹ سے لیکر ضلعی ھیڈ کوارٹرز تک افسران ، عوامی خدمت کے لیے جنگی بنیادوں پر پوری جانفشانی سے کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کسی اور اخباری انفرمیشن کیلئے میں نے پنجاب کے م±ستند سیکرٹری اوقاف جناب سید طاہر رضا بخاری سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ نگران وزیر اعلی پنجاب سید محسن نقوی نے مزارات پر بھی زائرین اور نمازیوں کی سہولیات ، لنگر خانوں کی بہتری ، اور خانقاھوں کے اسلامی تصور اور طرز تعمیر سے ہم آہنگ جدید تعمیرات کے میگا پراجیکٹس کا آغاز کر دیا ہوا ہے۔ اس مقصد کیلئے پنجاب کے چھ بڑے مزارات اور دو مساجد کیلئے تقریباً ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت کے ان منصوبوں کے پی سی ون تیار ھو چکے ھیں۔ داتا دربار کی ڈویلپمنٹ کا منصوبہ بھی الگ سے تیار ہورہا ہے۔
ان مزارات میں قصور کے اندر بابا بلہے شاہ کا مزار جہاں کئی دہائیوں سے کوئی کام نہیں ھوا وہاں پر تقریباء54 کروڑ کی لاگت سے کام کا آغاز ھونے لگا ہے۔ پاک پتن میں حضرت بابا فرید کے مزار پر نئی طرز کا وسیع لنگر خانہ ، محفل سماع اور خواتین کی الگ الگ نئی جگہیں ، مسجد کی توسیع بیسمنٹ کو مسجد سے نیا راستہ اور خانقاھی طرز کے لیے جنوبی سمت سے جگہ کی خریداری ، مسجد کے صحن میں مسجد نبوی طرز کی چھتریوں کیلئے پہلے فیز میں تقریباً 72 کروڑ کی لاگت سے کام شروع ہونے والا ہے۔ ا±چ شریف میں سرخ پوش پیدائشی ولی سید جلال الدین بخاری کے مزار کیلئے 75 کروڑ ، ملتان میں شاہ شمس تبریز کے مزار پر 48 کروڑ ، موسی پاک 3 کروڑ ، بادشاہی مسجد کی کنزرویشن 36 کروڑ ، بی بی پاک دامن فیز 2 پر 30 کروڑ ، اور ہولی ریلکس بادشاہی مسجد پر 6 کروڑ کی لاگت سے چند ہفتوں میں کام شروع ہو جائیں گے۔
مزارات اور انکے زائرین کی اتنی بڑی خدمت سے بلاشبہ یہ اندازہ ھوتا ہے کہ۔۔۔ روحانیت کے اصل خادمین نگران وزیراعلی پنجاب سید محسن نقوی اور روحانی خانوادے کے حقیقی چشم و چراغ سیکرٹری اوقاف سید طاہر رضا بخاری ہیں ، جنہیں یقینناً اولیاءاللہ نے اس خدمت پر مامور کیا ہے۔
مزارات پر جب یہ زائرین کی سہولیات کا بیڑہ ا±ٹھا ہی چکے ہیں تو شہر فرید میں لاکھوں شہریوں اور دوران عرس لاکھوں زائرین کی جان لیوا مشکلات پر ان کی توجہ دلانا انتہائی ضروری ھے کہ عام حالات میں بھی ملک بھر سے آنے والے زائرین کو شہر کے اندر دربار تک پہنچتے پہنچتے ایک گھنٹہ لگ جاتا ھے۔ وجہ تنگ سڑک ، ٹریفک جام اور دربار کی غیر فعال پارکنگ ھے۔ دوران عرس ہر سال بہشتی دروازہ سے گزرنے کیلئے آنیوالے لاکھوں زائرین کی بہشتی لائن لگوانے اور ایک الگ وی آئی پی گزرگاہ چلانے کی خاطر دس دن تک پورے شہر کو سینکڑوں آہنی جنگلوں اور عارضی پختہ دیواروں سے سیل کر دیا جاتا ہے جس سے لاکھوں زائرین اور شہری آبادی محبوس ھو کر رہ جاتی ھے حتی کہ درجنوں مقامات پر ہسپتال کو جانے والے راستے بھی بند کر دئیے جاتے ھیں، کاروبار زندگی معطل ھو جاتا ھے ، ہر راستہ ہر دروازہ بند ھونے کے باعث بیس سال قبل دوران عرس دم گھٹنے سے پچاس کے قریب زائرین لقمہ اجل بن گئے تھے کسی ایک کو بھی طبی امداد فراھم نہ کی جا سکی تھی۔۔۔ ان سارے سنگین مسائل اور زائرین سمیت شہریوں کی دوران عرس آزادانہ آمدورفت کا واحد حل ایک ” فلائی اوور “ کی تعمیر ھے ، جو ہر لحاظ سے آپ کی ان روحانی ، خدمات کے س±نہرے ھار میں ایک نگینے کی مانند ھو گا۔ اگر دربار بابا فرید پر آپ اھل مزار اور زائرین کی کوئی حقیقی خدمت کرنا چاھتے ھیں تو یہ فلائی اوور تعمیر کر دیجئے جو ملک بھر کے زائرین اور شہر فرید کے باسیوں کے لیے کرتار پور راہداری سے بڑا کارنامہ ھو گا جسے تاریخ میں ھمشہ یاد رکھا جائے گا۔