اب کوئی وزیر صحت سے تو پوچھ کر بتائے کہ حضرت جو کام گزشتہ 73 سال میں کسی سے نہ ہوسکا‘ وہ آپ صرف 10 برس میں کیسے کر دیں گے۔ ایسا کون سا جادوئی فارمولہ ہے یا الہ دین کا چراغ ہے جو آپ کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ یہ کوئی طاقتِور موکل ہوسکتا ہے یا شاہ جنات جو آپ کے قابو آگیا ہے۔ جس کی شہہ پر آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں۔ ایسے ہی دعوے کرنے والوں نے ملک کوکیا کم نقصان پہنچایا ہے کہ اب آپ کی باری ہے۔ آپ بھی عوام کو بے وقوف بنائیں۔ اس نگران مختصر دورحکومت میں اگر آپ نے محکمہ صحت کو ہی راہ راست پر درست پٹڑی پر ڈال دیا تو یہی آپ کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ عوام کو محکمہ صحت سے بھی بہت شکایات ہیں۔ شہروں کے ہسپتالوں کا رونا اپنی جگہ‘ کبھی موقع ملے تو دیہات‘ وہ بھی ذرا پسماندہ دور دراز دیہات کے دیہی صحت مراکز کا تو معائنہ فرمائیں سات نہیں چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ نہ وہاں ڈاکٹر ہیں نہ ادویات‘ نہ کوئی مناسب طبی سہولت۔ ایک آدھ ملازم جو چوکیدار بھی ہوسکتا ہے‘ سوئپر بھی‘ صفائی کرنے والی مائی بھی‘ وہی سب ان طبی مراکز میں ڈاکٹر‘ ڈسپنسر‘ دائی حتیٰ کہ سرجن کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔ بیشتر مراکز میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ادویات میں صرف ڈسپرین یا کھانسی کا شربت ہی دستیاب ہوتا ہے جوہر مرض کیلئے بطور امرت دھارا دیا جاتا ہے۔ 10 سال توکیا‘ 100 سال بھی اس بگڑے نظام کیلئے کم ہیں۔ ہاں اگر جذبہ تعمیر زندہ ہے‘ ایمانداری اور میرٹ پر بے خوف ہوکر کام کیا جائے‘ قانون کو مقدم رکھا جائے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر کیا محکمہ صحت کے ڈاکٹر و دیگر عملہ یہ کرنے دے گا۔ وہ تو اس پر بھی ہنگامہ کر سکتے ہیں کہ وزیر موصوف طویل عرصہ نگران حکومت کی عملداری کا اشارہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں اکثر 90 دن کے آنے والے 9 سال گزار دیتے ہیں۔ اس لئے عوام کا ماتھا ٹھنکا بھی‘ کچھ بعید نہیں۔
٭٭........٭٭
ٹی وی پروگرام میں سینیٹر افنان اور ایڈووکیٹ مروت میں ہاتھا پائی
گزشتہ روز ٹی وی چینل پر جو ہاتھا پائی‘ مارکٹائی ہوئی‘ اس کے بعد کیا رہ جاتا ہے ہمارے عوام کو براہ راست دکھانے کیلئے۔ جو کام سڑکوں‘ گلیوں‘ محلوں میں تھڑے باز ‘ موالی اور لفنگے کرتے ہیں‘ اب وہ ہمارے باشعور پڑھے لکھے لوگ سب کے سامنے میڈیا پر کرتے پھرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایساہوتا توکوئی نہ پوچھتا مگر یہ تو براہ راست چینل پر بات چیت کے دوران ہوا۔ بقول آتش
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تھی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
گالی گلوچ کی یہ روایت کیوں ہمارے دانشوروں ، پڑھے لکھے طبقے میں در آئی ہے۔ اس کی وجہ کون ہے۔ کس نے یہ رسم بد ہمارے نظام سیاست میں داخل کی کہ آج لوگوں میں حجاب ہی نہیں رہا۔سنیٹر افنان اور ایڈووکیٹ مروت دونوں پڑھے لکھے ہیں۔ صرف سیاسی اختلاف پر یہ ایسے الجھ پڑے کہ تماشہ بن گیا۔ اس طرح تو گلی محلے میں لڑنے والی لڑائی میں عورتیں ایک دوسرے پر نہیں جھپٹتیں جیسے یہ جھپٹے۔ اب میڈیا والوں کوپروگراموں پر بلانے سے پہلے ہر شخص کا تہذیبی اخلاقی ٹیسٹ لینا ہوگا کہ وہ کیسی زبان بولتا ہے اور کیسے ہاتھ پاﺅں چلاتا ہے۔ سیاست میں شرافت ، رواداری کے ساتھ تحمل کی بھی بڑی ضرورت ہے۔کسی کوگالی دینے اورہاتھ چلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مروت صاحب اب لاکھ نسلی برتری کا اظہار کریں‘ مگر جوانہوں نے کہا اورکیا وہ درست نہیں تھا۔ سنیٹر افنان نے بھی جوابی کارروائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لائیو ویڈیو میں سب دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ تماشہ ہزاروں ناظرین نے ٹی وی پر نامکمل اور سوشل میڈیا پر مکمل دیکھا اور دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔
٭٭........٭٭
پاکستانی شائقین کو ویزوں کے اجرا میں بھارت تاخیری حربے استعمال کرنے لگا
بھارت میں ہونے والے کرکٹ کے عالمی میلے میں ہر ملک کے لوگ اپنی اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کیلئے وہاں جا کر مقابلے دیکھنے کیلئے بے چین ہیں۔ ان میں پاکستان کرکٹ کے شائقین بھی شامل ہیں مگر بھارت وہی اپنی روایتی پرانی نفرت اوردشمنی کی آگ میں جل رہا ہے اور جان بوجھ کر اس نے پہلے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ویزے جاری کرنے میں تاخیری حربے استعمال کئے‘ اب وہ پاکستان کے کرکٹ شائقین کو ویزوں کے اجراءمیں جان بوجھ کر رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ بھارت کو خوف ہے کہ یہ پرجوش شائقین بھارت میں بیٹھ کر سٹیڈیم میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرائیں گے‘ پاکستان زندہ باد کے نعرے گے جس سے بھارتی حکومت لرزتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد دکن ایئرپورٹ پر بھارتی متعصب سکیورٹی حکام نے چاچا کرکٹ سے پاکستانی پرچم چھین لیا جو وہ ایئرپورٹ پر لہراتے ہوئے اپنی ٹیم کا استقبال کر رہے تھے۔ آئی سی سی کو ایسی گھٹیا حرکات پر بھارت سے احتجاج کرنا چاہئے۔
باقی ملک کے شائقین کو ویزے جاری ہو رہے ہیں تو پاکستانیوں کو کیوں نہیں اور پاکستان کے جھنڈے لہرانے یا نعرے لگانے سے بھارت میں کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ آخر باقی ممالک کے شائقین بھی اپنے قومی پرچم لہراتے ہیں۔ بھارت کو صرف پاکستانی پرچم اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے موت پڑتی ہے۔ یہ اس سے برداشت نہیں ہوتا‘ اگر ایسی ہی تکلیف ہے تو بھارت کی بجائے یہ مقابلے کسی نیوٹرل ملک میں کیوں نہیں کروائے جاتے جہاں تمام ملک کے شائقین اپنے اپنے پرچم لہرا کر اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آئیں۔ اس لئے بھارت سے کہا جائے کہ کھیل کوکھیل ہی رہنے دے‘ اسے سیاسی جنگ سے دور ہی رکھیں۔ ورنہ جانتے تو سب ہیں کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ یہ کہنے پر ذکا اشرف پر تنقید کیوں۔ چیئرمین پی سی بی کو چاہئے کہ وہ تنقید کرنے والوں کو دبنگ جواب دیں‘ مسکین بن کر نہیں۔ سوال کرنے والوں سے پوچھیں وہ بتائیں کہ وہ دونوں کو کیا سمجھتے ہیں۔
٭٭........٭٭
بیرون ملک بھکاری حکومت کیلئے دردسر بن گئے‘ عرب ممالک سرفہرست
ویسے توہمیں ساری دنیا جانتی ہے کہ ہم منگتے لوگ ہیں۔ بھکاری بن جانا ہماری فطرت میں شامل ہے۔ کیا حکمران‘ کیا عوام‘ کیا شاہ‘ کیا گدا‘ بقول شاعر مشرق
مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا
ملک کی تو بات چھوڑیں‘ یہاں ہر چوک‘ ہر گلی میں مساجد اور مزارات کے باہر جمع ہر وقت درجنوں بھکاری آپ پر حملے کی تاک میں رہتے ہیں۔ لاکھوں لوگ اسے منافع بخش کاروبارمیں شامل ہیں۔ بھیک مانگنے والے بھی اور ان سے منگوانے والے بھی جو ان بھکاریوں کو ہر قسم کا مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ عرب ممالک میں جا کر دیکھیں سب سے زیادہ پاکستانی فقیر بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔انہیں نہ اپنی شرم ہے نہ اپنے ملک کا لحاظ کہ اس طرح اس پاک سرزمین کی کتنی توہین ہوتی ہے۔ اکثر چھاپوں میں ان بے شرم فقیروں کے پکڑے جانے کی اطلاعات ملتی ہیں۔کسی کا کیا شکوہ کریں‘ سعودی عرب میں بیت اللہ شریف میں عمرے اور حج کے دوران جیب کترنے والے بیشتر پاکستانی نکلتے ہیں۔ یہ بدبخت تو خانہ خدا کو نہیں بخشتے۔ یہی حال مدینہ منورہ کا ہے۔ روضہ رسول(ﷺ) میں بھی یہ بدبخت کارروائیاں کرتے ہیں جبکہ مکہ اورمدینہ کی پاک گلیاں ان بھیک منگوں سے بھری نظر آتی ہیں۔ باقاعدہ مافیا اور ٹریول ایجنٹ ان کو وہاں بھیجتے ہیں اوران کی رہائش کا بندوبست کرتے ہیں۔ واپسی پر ان کی بھیک کا آدھا حصہ بطورکمشن کاٹ لیتے ہیں ورنہ سوچنے کی بات ہے جو بھیک مانگتا ہو‘ وہ دوسرے ملک کیسے پہنچ جاتا ہے۔گزشتہ دنوں ملتان میں ایسے 16 مرد و خواتین کو پکڑ لیا جو بھیک مانگنے عرب ممالک جا رہے تھے۔ ایسے لوگ اوران کے ایجنٹ کو معاف کرنا خود بہت بڑا گناہ ہے۔ قانون نافذ کرنے والے کم از کم ان پر کڑی نظر رکھیں۔