سپریم کورٹ آف پاکستان نے سرکاری افسران کےلئے ”صاحب“ کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا۔سرکاری ملازمین کے اپنے افسر کیلئے ’صاحب‘ کا لفظ استعمال کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں سخت سرزنش بھی کی۔چیف جسٹس نے باور کرایا کہ ہم 1947ءمیں آزاد ہو گئے تھے، یہ غلامی والا تاثر ذہنوں سے نکال دیں۔
سر جھکا کر ملتجی انداز میں عدالت میں فاضل جج کو ’می لارڈ‘ کہہ کر مخاطب کرنا‘ افسر اور ماتحت کے مابین ہونیوالی گفتگو کے دوران ’صاحب‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے سے غلامی کا ہی تاثر ابھرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی عدالتوں بالخصوص انگریز دور میں لگائی جانیوالی عدالتوں سے سائلین کی یہی توقع ہوتی تھی کہ قاضی القضاة بغض و عناد‘ غصے یا خوشی سے بالاتر ہو کر انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ صادر کرے گا جس کیلئے انہیں ’می لارڈ‘ جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درست باور کرایا ہے کہ ہم 1947ءمیں آزاد ہو چکے ہیں‘ اس لئے ہمیں غلامی والا تاثر ذہنوں سے نکال دینا چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی کیس کی سماعت کے دوران عدالت اور جج کا احترام ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اس کیلئے می لارڈ‘ یا صاحب جیسے القابات سے نوازا جانا ضروری نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدل گستری میں جن روایات کا آغاز کر رہے ہیں‘ وہ واقعی قابل ستائش ہیں۔ اس سے عدالتی نظام کو انگریز کی چغوڑی گئی بدروایات سے نجات ملے گی اور ملک میں ایک حقیقی آزاد عدلیہ کا تصور ابھرے گا۔ بہتر ہے کہ عدالتی کارروائی اردو زبان میں کی جائے جس کیلئے سپریم کورٹ پہلے ہی فیصلہ صادر کر چکی ہے۔ اردو زبان میں کی جانیوالی کارروائی سے سائلین بھی مطمئن ہونگے اور انہیں اپنے کیس سے بہتر طریقے سے آگاہی ہو سکے گی۔ اردو زبان رائج کرکے عدالتی نظام کو مکمل طور پر انگریز کی غلامی سے آزاد کیا جا سکتا ہے۔