بلوچستان' سردار میر باز کھتیران اور پیپلز پارٹی

29 ستمبر کی شب بلوچستان کے علاقے پنجگور میں دہشت گردی کے نتیجے میں 7 بے گناہ مزدوروں کی شہادت پر اہل وطن نوحہ کناں ہیں۔ اسی روز  سردار میر باز کھتیران مغموم طبیعت' رنجیدہ دل اور چشم پرنم سے دوستوں اور احباب کو بتاتے رہے کہ خفیہ دشمن پاکستان کے دل (بلوچستان) پر وار کرکے کس طرح  ہمیں زخم دیتا ہے تاہم وہ حوصلہ بھی دیتے کہ یہ مٹھی بھر وطن دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوئے نہ ایسا ہوگا۔ پاکستان کے 24 کروڑ محبان اپنے مادر وطن کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی مانند متحد اور یک جان ہیں… سردار میر باز کھتیران' بلوچستان اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے لئے لازم وملزوم کی ایسی ریشمی  دوڑی میں بندھے ہوئے ہیں جن پر اعجاز وانبساط کے کئی مینار تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔ یہ وہی میرباز کتھیران ہیں جو 1988ء کے عام انتخابات میں پورے بلوچستان سے پیپلز پارٹی کو واحد نشست دلوانے میں کامیاب ہوئے۔ قومی اسمبلی میں اراکین کی حلف برادری کے روز بلوچستان سے منتخب ہونے والے اکلوتے ایم این اے کا بے نظیر بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کی مرکزی لیڈر شب نے جس والہانہ انداز سے استقبال کیا وہ پارلیمانی تاریخ کا یادگار حصہ ہے۔ محبت اور اپنائیت کے یہی وہ عدیم المثال لمحے تھے جب اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے  ابتدائی اور غیر معمولی خطاب میں متحرمہ بے نظیر بھٹو نے ''چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر'' جیسے نعرے کو میرباز کتھیران سے منسوب کیا۔ شہید بی بی کا یہ انداز جلیل منفرد اور جداگانہ اس لئے بھی تھا کہ میر باز کتھیران کی کامیابی نے نعرے کی لاج رکھی ہوئی تھی۔ یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی کے سنجیدہ رہنماوں میں میرباز کتھیران کا شمار ان کی شبانہ روز عوامی خدمت اور کارکنوں کو سرپرستی سے معنون ہے۔ ایم این اے شب سے وزارت امور کشمیر اور پھر پارٹی عہدے دار تک  ان کی خدمات کا پاکستان اور پاکستان سے باہر چرچا ہے۔تارکین وطن انہیں چلتا پھرتا پاکستان اور پیپلز پارٹی کے سافٹ امیچ کے طور پر جانتے ہیں۔ عوامی اجتماعات سے پارلیمان کے خطابات تک میرباز کھتیران کی گفتگو پاکستان سے شروع اور پاکستان پر ختم ہوتی ہے۔ بلوچستان کے اس سیاسی رہنما کی ان ہی ادائوں نے انہیں پارٹی لیڈر شپ  کے قریب کیا ہوا ہے۔ ستمبر کے آخری عشرے میں چیئرمین پیپلز  پارٹی بلاول زرداری بھٹو نے بلوچستان میں صوبائی پارٹی تحلیل کرکے جس چھ رکنی کمیٹی کو انتظامی اختیارات تفویض کئے ان میں سردار میرباز کتھیران کو بھی شامل کیا گیا۔ نئی انتظامی پارٹی کی تشکیل اور کھتیران صاحب کی شمولیت پارٹی قیادت کا ان پر غیر معمولی اعتماد  کا مظہر ہے، یقین ہے میر باز صاحب ماضی کی طرح بلوچستان' کارکنوں اور پارٹی کی توقعات پوری کرنے کا چراغ روشن رکھ کر  پارٹی قیادت  کا فیصلہ صحیح ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔  یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان کو سیاسی ایشوز کا سامنا ہے دہشت گردی نے بھی سر اٹھایا ہوا ہے۔ صوبائی حکومت سے شکوں کی چنگاری بھی موجود ہے۔ان درپیش حالات اور سیاسی چیلنجز میں سنجیدہ اور مقبول لیڈر شب کا کردار سامنے آنا ضروری ہے پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ مجوزہ آئینی عدالت کے قیام سے امن وامان تک اور عوامی خدمت سے پارٹی مقبولیت تک جس طرح درست سمت میں درست قدم اٹھارہی ہے مستقبل قریب میں پاکستان اور اہل پاکستان کو اس کا بڑا ثمر ملنے والا ہے۔ ہماری خواہش  اور دعا ہے کہ سردار میر باز کتھیران جیسے جہاں داد سیاست دان صدرمملکت آصف علی زرداری اور چیئرمین  بلاول بھٹو زداری کی قیادت میں تعمیر وترقی ' خوشحالی اور کامیابی کا سفر تیزی سے طے کریں!! یہاں مشعل برکون یاد آگئے وہ اپنی کتاب  میں لکھتے ہیں کہ "مختلف سازشوں کا مقصد کسی ملک، علاقے یا پوری دنیا پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔ یہ باتکینڈین امریکی مفکر آر سی ہکس نے کہی ! کسی بھی ٹیکسٹ (جس سے بیانیہ بنایا جاتا ہے) اسکے ظاہر ی معنوں کو تبدیل کرکے اس میں چھپا فراڈ جانا جاسکتا ہے۔ ایک اور م فکر "ٹیری ایگلٹن بلیک ویل اپنی کتاب کے صفحہ 169 پر اسی فراڈ کو ظاہر کرنے کے لیئے لکھتا ہے کہ جس ٹیکسٹ کے ذریعے علمی بحث کی جاتی ہے ا?س میں بہت سارے تضاد ہوتے ہیں لیکن بظاہر یہ ٹیکسٹ پرفیکٹ اور نارمل نظر آتا ہے۔ پروفیسر دیویکے مطابق   "ڈسکورس اور بیانیہ" مضبوط تصوراتی تضادات کو جوڑ کر بنایا جاتا ہے جس کے مطلب یہ ہے کہ دو متضاد تصوارت کو اکٹھا کردیا جاتا ہے۔" بظاہر یہ بات  بلوچستان کیس میں بڑی نارمل نظر آتی ہے کہ جہاں احساس محرومی ہو وہاں بغاوت ہوتی ہے اور جہاں بغاوت ہو وہاں ریاست طاقت استعمال کرتی ہے۔اوپر بیان کردہ ساری تحقیق کا سادہ لفظوں میں نچوڑ یہ ہے کہ بلوچستان کے متعلق بیرون ممالک تیار کیا گیا بیانیہ "احساس محرومی اور ریاستی جبر "  میں "احساس محرومی" مظلومیت کی اور "ریاستی جبر" ظلم و ستم کی جھوٹی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس سے قبل کہ ٹھوس دلائل، شواہد اور حقائق کے ساتھ پاکستانی ریاست کے خلاف اس بیانیے کا پوسٹ مارٹم کرکے اس کے پیچھے چ?ھپی قوتوں اور ا?ن کے مقاصد کو برہنہ کیا جائے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ آج کا انسان بیانیہ کے دور میں زندہ ہے اور یہ بیانیہ پروموٹ ہوتا ہے اور دہشت گردی کی جنگ سے لیکر آجتک پاکستان مخالف  چند مغربی طاقتیں جن میں ان کے جنوبی ایشیاء میں اتحادی بھارت اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت بھی شامل ہیں ایک تسلسل کے خلاف پاکستان کے خلاف مختلف بیانیے بنا کر پاکستان کو کمزور کرنے اور اس میں انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اس سے وہ آخر حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اور بلوچستان میں ان کا یجنڈا کیا ہے؟ یہ دو سوال ہیں جن کے جوابات "احساس محرومی اور ریاستی جبر " کے بیانیے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، بلوچ عوام کو مظلوم  ثابت کرنے والی دشمن طاقتوں کا کردار جاننا بھی ضروری ہے ۔ ہماراازلی دشمنی،  بھارت افغان گٹھ جوڑ  "احساس محرومی اور ریاستی جبر" کے پراپیگنڈے سے  وار کررہاہے مگر وہ ہمیشی نامراد رہے گا۔

ای پیپر دی نیشن