اے خاصہ خاصان رسل

ہم دونوں میاں بیوی عمرہ اور زیارتوں کے لیے سعودی عرب آئے ہیں۔جیسے ہی میں اپنی بیگم کے ساتھ جدہ پہنچا۔ جدہ ایئرپورٹ پر پاکستان کمیونٹی کی بہت بڑی تعداد نے میرے استقبال کیا۔ جن میں جدہ ، طائف اور سپین سے آئے چوہدری عابد، فاروق وڑائچ ،ہنجرہ صاحب، چیمہ صاحب، چٹھہ صاحب کے علاوہ درجنوں لوگ تھے۔انہوں نے ایئرپورٹ پر ہمیں پھولوں کے گلدستے پیش کیے اور پھر وہاں جدہ مال میں باربی کیوٹو نائٹ میں انہوں نے ہماری ضیافت کا اہتمام کیا ہوا تھا جہاں اور بھی پاکستانی لوگ اور فیملیاں آئی ہوئی تھیں، سب کو انہوں نے میرے اعزاز میں ضیافت دی۔ اس کے بعد پھر وہ ہمیں مکہ چھوڑنے آئے۔مکہ میں ہوٹل میں ہمارا قیام تھا۔ اور اس قیام کے دوران ہم نے عمرہ کیا، پہلے ہم مسجد عائشہ گئے، احرام باندھا پھر ہم عمرہ کے لیے گئے۔بہت زیادہ رش تھا ،مکہ میں اور حرم میں کنسٹریشن بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ لیکن گرمی بھی بہت زیادہ تھی ،گرمی 45پلس تھی اور ابھی بھی 48کے درمیان گرمی کا درجہ حرارت ہے۔ پھر ایک دن پورا ٹورلے کر میں ٹور گائیڈ اورڈرائیور کے ساتھ گیا۔ہم نے پورے مکہ کے اطراف میں جتنی بھی زیارتیں ہیں ان میں باری باری گئے۔اس کے بعد میدان عرفات  جمرات جہاں شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ مساجد اور سلطنت عثمانیہ کے وقت کی اور تاریخی ہیرٹیج جو عمارات تھیں ان کا وزٹ کیا۔ اس کے علاوہ مکہ میں پاکستانی کمیونٹی کے دو درجن احباب نے ہمارے اہتمام میں دعوت رکھی ہوئی تھی ہم نے ضیافت کھائی۔ سب سے اہم کام جو بتانے والا ہے وہ یہ ہے کہ وہاں ہم نے حرم شریف کے قریب ہی ایک ہوٹل دیکھا۔ہمارا پروگرام تو کسی اور ہوٹل میں کھانا کھانے کا تھا لیکن وہاں لکھا ہوا تھا کہ اصلی گوجرانوالہ کے کھانے۔ لیکن اس پر جو دلچسپ بات لکھی ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ گوجرانوالہ ہوٹل قیدی نمبر804۔تو میں نے کہا کہ اب اس میں جا کر ضرور دیکھیں گے پھر ہم نے ریسٹورنٹ پر کھانا کھایا ،واقعہ گوجرانوالہ کے کھانوں کی کی یاد آگئی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ کتنی دلیری سے اس شخص نے ریسٹورنٹ کا نام گوجرانوالہ ہوٹل قیدی نمبر804رکھا ہوا ہے۔وہاں پر بڑا رش تھا ایک بھی سیٹ خالی نہیں تھی۔ ہمیں انتظار کرنا پڑا اور پھر ہم نے اسے بتایا پھر اس نے خصوصی اہتمام کے ساتھ ہمیں کھانا سرو کیا۔کہنے کو تو درمیانہ سا تھا ہوٹل لیکن اس کا نام بہت بڑا تھا۔ قیدی نمبر804پر جو انہوں نے کیا، وہ ایک زبردست تھا ،لوگ لائنیں لگا کر کھانا کھا رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک سے باہر بھی لوگ ملکی معاملات میں اپنی دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی دلچسپی کی وجہ ہے کہ آج لوگ پاکستان سے پیار کرتے ہیں اگر دلچسپی ختم ہو جائے تو یہ پیار ختم ہو جاتا ہے۔ 
ہم جہاں بھی گئے پاکستانی ملے ظاہر ہے انہوں نے زیادہ تر پاکستان کے حوالے سے ہی بات کرنی تھی۔ پاکستان کی سیاست پر بات کرنی تھی اور یہاں لوگ کھل کر پاکستان کی سیاست پر بات کرتے ہیں۔پاکستان کی سیاست کے ساتھ ساتھ عالمی امور بھی موضوع گفتگو بنتے ہیں۔اسرائیل فلسطین جنگ کے حوالے سے سعودی عرب میں موجود جس بھی شخص سے بات ہوئی وہ مقامی تھا دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگ تھے یا پاکستانی تھے سب میں ایک طرح کا اشتعال پایا جاتا تھا کہ مسلم ممالک کے سربراہان فلسطین کی حمایت میں کھل کر کیوں نہیں نکلتے جس طرح اسرائیل کی حمایت میں امریکہ برطانیہ اور دیگر ممالک ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر بات کی گئی۔انہوں نے اسلامو فوبیا کے حوالے سے بھی بات کی۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران ہاٹ اور اہم ترین موضوع اسرائیل فلسطین جنگ اور دوسرے نمبر پر یوکرین روس جنگ ہی رہے۔اسرائیلی وزیراعظم خطاب کے لیے آئے تو بہت سے ممالک کے وفود بشمول پاکستان کے ان کا بائیکاٹ کیا گیا۔مذمتوں اور بائیکاٹوں سے اگر مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر حل ہونا ہوتا تو اب سے بہت دیر پہلے حل ہو چکا ہوتا اس کے لیے مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت ہے۔بالکل اسی طرح کے اتحاد کی ضرورت ہے جس طرح کا اتحاد اسرائیل کی پشت پر امریکہ کی سربراہی میں کھڑا ہے۔صرف جنگ بندی ہی نہیں بلکہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں منظور ہو چکی ہیں لیکن اقوام متحدہ کی بے بسی ہے کہ ان پر عمل آج تک نہیں ہو سکا۔ان دونوں مسائل کا ایک ہی حل ہے مسلمانوں کی طرف سے عملیت پسندی۔مذمتیں اور بائیکاٹ بہت پیچھے رہ گئے اب اسرائیل کے ظلم کا ہاتھ مسلمانوں کو مل گھر روکنا ہوگا ورنہ تمہاری داستان بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔
یہ کتنی دیدہ دلیری ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہی حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو لبنان کے اندر ان کے گھر میں اسرائیل کی طرف سے بمباری کر کے شہید کر دیا گیا۔اس سے پہلے ایران میں گھس کر اسرائیل کی طرف سے حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو شہید کیا گیا تھا اور اس سے چند روز قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بھی ایک حادثے میں جان بحق ہو گئے تھے اس کے پیچھے بھی اسرائیل ہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔حسن اللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل نے جنگ کا دائرہ کار مزید بڑھا دیا  ہے۔اس کی طرف سے یمن لبنان غزہ اور شام پر بیک وقت حملے کیے جا رہے ہیں۔ بیروت میں مختلف علاقوں میں صرف ایک دن میں 77 افراد شہید ہوئے ہیں۔لبنان کے اندر پیجر اور واکی ٹاکی سیٹ پھٹنے سے تیس شہادتیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں ان لوگوں کے لیے اب موبائل فونز کا استعمال بھی خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔
جیسا کہ گزشتہ کالم میں ہم نے کہا تھا کہ مسلم امہ کی مشکلات کے خاتمے کے لیے روضہ رسول اور خانہ خدا میں ہم دعائیں کریں گے۔فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لیے دونوں مقامات پر التجائیں کریں گے۔حرم پاک میں ہم نے یہ سارا کچھ کیا ہے جبکہ مدینہ منورہ میں روضہ رسول پر بھی امہ کی مشکلات ہو مصائب سے نجات کے لیے التجا کریں گے۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
دعائیں سب ہمارے ایمان کا حصہ ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی خود کچھ کرنا ہے۔ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو کچھ بھی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔کیونکہ 
خدا نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

ای پیپر دی نیشن