کہا جاتا تھا کہ کسی ملک کے لوگوں کے رویوں کو جانچنا ہو تو وہاں کی ٹریفک کا ڈسپلن دیکھ لو لیکن یہ بات اس وقت کی ہے جب سوشل میڈیا نہیں تھا اب تو معاشرے کی مجموعی ہی نہیں انفرادی سوچ اور اپروچ سب کچھ سوشل میڈیا کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ اگست کے اوائل میں دارالحکومت میں ایک خبر پھیلی کہ ملک کے چیف جسٹس کے ساتھ اسلام آباد کی ایک مشہور بیکری کے ملازم نے بدتمیزی کی۔ ان دنوں چیف جسٹس کی عدالت سے آنے والے ایک فیصلے پر کچھ مذہبی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید اور احتجاج کیا جارہا تھا، معاملے کی حساسیت کی بنا پر کھل کر کوئی اس واقعے پر بات نہیں کررہا تھا اکا دکا ٹی وی شوز میں بھی اس واقعے کا دبے الفاظ میں ذکر کیا گیا اور پھر معاملہ دب سا گیا۔ پھر اچانک ستمبر کے آخری دنوں میں اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے اور پھر وہی طوفان بدتمیزی جو سوشل میڈیا کے زریعے ہماری معاشرتی اور اخلاقی گراوٹ کا چیخ چیخ کر اظہار کرتا ہے۔ اور پھر ہمارے یہاں گزشتہ سال کے دوران پیدا کی جانے والی شدید سیاسی تقسیم جس کو نفرت میں بدلا جاچکا ہے وہ بھی کھل کر سامنے آگئی۔
پھر جعلی خبروں کا دھندا کرنے والوں کا کاروبار چمک اٹھا۔ سوشل میڈیا جہاں جعلی خبروں کا دھندا ہوتا ہے۔ جان بوجھ کر جعلی خبریں اور ویڈیوز پھیلائی جاتی ہے۔ معصوم اور ’باشعور‘لوگوں کا استعمال کرکے ڈالرز کمائے جاتے ہیں۔ واقعہ کی چند سیکنڈ کی کئی ہفتے پرانی ویڈیو کیا آئی جعلی خبروں اور ویڈیوز کا دروازہ کھل گیا کہیں بیکری کو سیل کیا جارہا ہے تو کہیں بیکری کا مالک خودکشی کررہا ہے اور تو اور ایک جماعت کے ’باشعور‘ تو بیکری پر پارٹی پرچموں کے ساتھ پہنچ گئے اور پھول رکھنے شروع کردیے۔ سب سے پہلے واقعے کے اصل حقائق جاننا ضروری ہے چند سیکنڈ کی ویڈیو میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے جج کے ساتھ ایک بیکری ملازم کی جانب سے جو بدتمیزی کی گئی وہ تو سب نے دیکھی پھر کیا ہوا۔ چیف جسٹس صاحب نے بات سنی اور پھر ان سنی کردی۔ بیکری ملازم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دو لوگ تھے، ایک ویڈیو بنارہا تھا، دوسرے نے بدتمیزی کی۔ چیف جسٹس پروٹوکول کے بغیر تھے لیکن ان کی سکیورٹی کے لیے پولیس اہلکار ساتھ تھا جس نے ایک لڑکے کو پکڑ لیا دوسرا بھاگ گیا۔ جسے پکڑا گیا اسے بھی بعد میں تنبیہ کرکے چھوڑ دیا گیا۔
بیکری سیل کرنے کی ویڈیو حیران کن طور پر وہ لوگ ابھی شیئر کررہے تھے جو ویڈیو سامنے آنے کے بعد اس بیکری سے ’اظہار یکجہتی‘ کے طور پر خریداری بھی کرچکے تھے۔ دراصل بیکری سیل کیے جانے کے یہ ویڈیو مبینہ طور پر اصل لیکن پرانی ویڈیو تھی جب ایک بار اس بیکری کو چند گھنٹوں کے لیے سیل کیا گیا تھا جبکہ بیکری مالک کو جس ویڈیو میں خودکشی کی کوشش کرتے دکھایا گیا اور ہمارے ’باشعور ‘ اسے دھڑا دھڑ آگے پھیلاتے گئے وہ حیدر آباد میں پیش آنے والے کسی اور واقعہ کی ایک پرانی ویڈیو تھی۔
یہ تو اس واقعہ سے متعلق کچھ حقائق تھے۔ اب بات کرلیتے ہیں کچھ تصورات کی۔ فرض کریں آپ اس جگہ ہوتے۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایسی کسی جگہ پر جاتے اور ایسا کوئی شخص آپ کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا؟ ننانوے فیصد لوکوں کا ردعمل یقینا خاموشی ہرگز نہ ہوتا، ملک کا چیف جسٹس کسی بھی ملک کا ایک طاقتور ترین شخص ہوتا ہے۔ تمام ادارے اس کے حکم ماننے کے آئینی طور پر پابند ہوتے ہیں۔ لیکن اس طاقتور ترین شخص کا ردعمل وہ تھا جو ہم میں سے بمشکل ایک فیصد کا بھی نہ ہوتا، تو بات تو قابل ستائش ہے۔ پھر فوری ردعمل نہ دینے کے بعد اس واقعے پر کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ کرنا جس کا حق کسی بھی شہری کو حاصل ہے اور بھی قابل ستائش ہے۔ شاید ہم میں سے اکثر اگر اس سے بہت کم بھی کسی عہدے اور اختیار کے حامل ہوتے تو اس طرح کسی مارکیٹ میں خود جاتے بھی نا کسی ملازم سے یہ کام کروا لیتے اور اگر جاتے اور کوئی ایسی بدتمیزی کردیتا تو پھر ہم اسے دکھا دیتے کہ ہم ہیں کون!
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خیالات اور ان کے فیصلوں سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہوگا جیسا کسی بھی جج کی فیصلوں سے ہوسکتا ہے لیکن اسلام آباد کے بہت سے شہری اور صحافی جانتے ہیں کہ وہ ایک عوامی قسم کئی شخصیت ہیں۔ کئی لوگوں نے انھیں اپنی رہائش گاہ سے سپریم کورٹ پیدل آتے بھی دیکھا ہے، ان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس کو کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اس پر ان کے ردعمل نے یقینا ان کی اور ان کے عہدے کی تکریم بڑھائی ہے اور اس واقعہ پر جو ہمارا ردعمل سامنے آیا دیکھ کر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس نے معاشرے کی اخلاقی پستی کو بے نقاب کردیا، وہ تو پہلے بھی کئی بار بے نقاب ہوچکی ہے بلکہ ہوتی چکی آرہی ہے ۔ جہاں گالی کو شعور کہا جائے اور گالی دینے والے کو ہیرو کا درجہ سے دیا جائے وہاں تو اسے غلط کہنے کو کون درست مانے گا۔ لیکن صرف اتنا سوچ لیں کہ آپ اس جگہ ہوتے تو کیا ہوتا؟شاید آپ کو جواب مل جائے۔