کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے؛ پنجاب کی 25 جامعات جن میں سے اکثر دو سال بغیر وائس چانسلر کے انتظامی و معاشی مسائل سے دو چار رہیں، بالآخر ان میں سے سات میں وی سی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن ہو گیا ہے جبکہ 6 خواتین جامعات کا نوٹیفیکیشن جلد جاری ہونے کی شنید ہے۔ باقی جامعات کے لیے تیسرے مرحلے کے انٹرویو جاری ہیں۔ جی سی یو لاہور سمیت چار جامعات کے لیے دوبارہ اشتہار دینے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ یوں تو وائس چانسلر تعیناتی ہمیشہ ایک اہم کام رہا مگر یہ اتنا پیچیدہ اور کٹھن کبھی نہ تھا۔ اشتہار دیا گیا، کمیٹی بنی، انٹرویو نہ ہوئے۔ پھر اشتہار دیا گیا، ڈاکٹر سہیل نقوی کی سربراہی میں کمیٹی بنی، دیگر کمیٹیاں بنیں، نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے انٹرویو نہ کرائے اور معاملہ اگلی حکومت پر چھوڑ دیا۔ اس دوران مزید جامعات سے وی سی ریٹائر ہوئے اور ہوتے ہوتے بات 25 یونیورسٹیوں تک جا پہنچی۔ کئی امیدوار 65 برس کے ہو کر نااہل قرار پاگئے۔ نئی حکومت قائم ہوئی، کچھ ہوش سنبھالا توایک مرتبہ پھر جون 2024ء میں اشتہار دیا گیا مگر اس مرتبہ تیزی سے کام ہوا۔ امیدواروں کی فہرست طویل تھی، لہٰذا سابق بیوروکریٹ اسماعیل قریشی کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے ارفع کریم ٹاور میں صبح شام انٹرویوز کیے۔ وزیراعلیٰ نے ٹاپ امیدواروں کے انٹرویوز خود کیے اور سمریاں گورنر کو ارسال کردیں۔
یہ سلسلہ بہت تیزی سے جاری رہا اور پھر پنجاب حکومت اور گورنر ہاؤس کے مابین سرد جنگ گرم ہوتی نظر آئی۔ یہ نوبت اس وقت آئی جب گورنر سردار سلیم حیدر نے بھی مناسب سمجھا کہ وہ امیدواروں کے انٹرویو کریں اور کہا کہ انھیں سخت شکایات موصول ہوئی ہیں، کمیٹی پر کرپشن کا الزام ہے۔ پھر انھوں نے بھی انٹرویوز کیے۔ 13 سمریاں گورنر ہاؤس پہنچے 21 روز ہو چکے تھے، گورنر اور وزیر اعلیٰ دونوں طرف سے حتمی امیدوار کی نامزدگی کے اختیار کے استعمال پر اختلاف کا بیانیہ جاری تھا کہ اچانک 23ستمبرکی شام سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نے سات جامعات کے لیے نوٹیفیکیشن جاری کردیے۔ اگلے روز چانسلر نے ان سات جامعات اور 6 خواتین جامعات سمیت تمام سمریوں پراعتراض لگاکر بھیج دیے۔ وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری اور وزیر برائے سکول ایجوکیشن رانا سکندر حیات نے دوبارہ گورنر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
اس سے قبل ایک باقاعدہ میڈیا وار ہوئی ، درجنوں پروپیگنڈا وی لاگ ہوئے، شکوہ جوابِ شکوہ کا سلسلہ جاری رہا۔ سرچ کمیٹی نے نام فائنل کیے تو سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر فرخ نوید نے نام صیغۂ راز میں رکھے۔ اس بات کا اندازہ یوں ہوا کہ شہر کی انتہائی اہم اور باخبر شخصیات کو بھی خبر نہ تھی کہ پینل میں تین نام کن کے ہیں۔ چہ مگوئیاں ہوتی رہیں، کچھ پتا کریں، خبر لگائیں۔ یہاں تک کہ ایچ ای ڈی ذرائع بھی بے خبر تھے کہ ہو کیا رہا ہے، کس کا نام ہے، کون کون آرہا ہے۔ ایک مافیا جس میں چند نامور صحافی بھی شامل ہیں، ماضی میں یونیوسٹیوں میں وی سی لگواکر چار سال تک ان سے صحیح غلط کام کرواتا رہا، وہ سر گرم رہا ، سر توڑ کوشش کی، بہت سفارشیں کیں اور کروائیں، بڑے سیاستدانوں سے کہلوایا مگر مریم نواز نے ایک نہ سنی۔ یہاں تک کہ بڑے میاں صاحب کے در پر پہنچے مگر اس بار مراد نہ پا سکے۔ مریم نواز سے سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر ان کی جگہ کوئی اوروزیر اعلیٰ ہوتا تو سب مینج ہو جاتا۔
اس دوران ایک حساس معاملہ پیش آیا۔ وزیر برائے سکول ایجوکیشن نے ملک کی ایک بڑی جامعہ کے ایک حاضر سروس پروفیسر پر وی سی لگنے کے لیے ان کے ڈرائیور کو 2 کروڑ روپے رشوت اور سی وی بھیجنے کا سنگین الزام لگایا۔ اس الزام نے اس جامعہ کے سب پروفیسروں کو مشکوک بنا دیا۔ ہر کوئی پوچھتا رہا کہ وہ کون ہے؟ اگر ’وہ‘ واقعی ہے تو وزیر اعلیٰ اور گورنر سے مطالبہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ اٹھارویں ترمیم کی رو سے یونیورسٹی اسے فارغ کرنے کی ذمہ داری کس کی بنتی ہے؟ اور ’وہ‘ نہیں ہے تو وزیر محترم سے باقاعدہ وضاحت طلب کرکے اعلان کیا جائے۔ یونیورسٹی پروفیسران اور یونیورسٹی کمیونٹی بہر صورت اس بدنما دھبے کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ پورے ملک اور دنیا بھر میں اس بیان سے جگ ہنسائی ہوئی۔ پروفیسرز طلبہ کا سامنا کیسے کریں؟ وہ بھی سوال کرتے ہیں، لہٰذا ذمہ داری کا تعین کریں اور سزا دیں نہ کہ راہِ فرار اختیار کریں۔
ایک اور اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک بڑی جامعہ میں ایک شخص آیا اور کچھ لوگوں سے کہا کہ میں ایک حساس ادارے کا اہم افسر ہوں، میں آپ کی ایسی خفیہ رپورٹ تیار کروں گا کہ آپ وی سی بن جائیں گے، بس بے فکر ہو جائیں۔ امید وار زیادہ تھے، کسی نے لیپ ٹاپ دیا، کسی نے پٹرول سمیت سرکاری گاڑی دی، ہزاروں کے جوگرز، برانڈڈ پرفیوم، کپڑے اور کسی نے لاکھوں روپے نقد۔ خدا کا لاکھ شکر ہے ان میں سے ابھی تک کوئی بھی وی سی نہیں لگا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد میں سے کسی کے خلاف کسی اقدام کا نہ تو چانسلر کو خیال آیا اور نہ ہی وزیراعلیٰ کو۔ مگر کیوں؟ اس معاملے میں بھی سبقت لے جانے کی کوشش کی جانی چاہیے تھی ۔
ڈیڑھ دو سال سے جامعات میں بری گورننس اور معاشی مسائل زور پکڑ چکے ہیں اور پرووائس چانسلروں نے، ماسوائے چند ایک کے، لوٹ مار کا بازار گرم رکھا اور میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقربا پروری اور گروپ پروری کی انتہا کردی۔ چانسلر اور نئے وائس چانسلرز سے درخواست ہے کہ پرو وائس چانسلرز کے دور میں ہونے والے مالی اور اختیار کے استعمال کی کرپشن کا آڈٹ کرائیں۔ اس سے جامعات میں نہ صرف ایک اچھی شروعات ہو گی بلکہ حق داروں کو ان کا حق ملے گا، مالی برآمدگی بھی ہو گی اور مستقبل کے لیے اچھی مثال بھی قائم ہوگی۔