سیاست ایک بار پھر احتجاجی مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنے آخری مہینوں اور نگران حکومت نے اپنے پورے دور حکومت میں تحریک انصاف کو جلسے جلوسوں اور احتجاجی سیاست کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا حتی کہ انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو جلسے جلوسوں کی اجازت نہ ملی۔ موجودہ حکومت نے بھی اسی پیٹرن پر ابتدائی چھ ماہ تو نکال لیے لیکن اب ایوانوں کے اندر اور باہر احتجاج شروع ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد اور لاہور میں جلسوں نے تحریک انصاف کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اب جلسوں کی اجازت نہ ملنے پر بھی احتجاج ہوں گے۔ مخصوص نشستوں کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر بھی احتجاج ہوں گے اور زور زبردستی سے مینج کرکے آئینی ترامیم کروانے پر بھی احتجاج ہوں گے۔ عدالتی معاملات پر وکلاء بھی احتجاج کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی اپنے ساتھ کیے گئے وعدوں پر روگردانی کیئے جانے پر احتجاج کر رہی ہے۔ حکومت کے لیے مسائل ہی مسائل ہیں۔ حکومت اگر تحریک انصاف کو جلسوں کی اجازت دیتی ہے تو بڑے بڑے جلسے حکومت کے لیے خطرہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر حکومت جلسوں کی اجازت نہیں دیتی تو احتجاج اس سے زیادہ خطرناک ہو گا۔ راولپنڈی میں تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت نہ ملنے پر کیے جانے والے احتجاج نے جلسے سے بڑھ کر کام کر دکھایا ہے۔ حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا کر راولپنڈی اور اسلام آباد کو مکمل سیل کرکے بھی لوگوں کو احتجاج کیلیے نکلنے سے نہ روک سکی۔ آنسو گیس کی خوفناک شیلنگ، مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں چلانے، تحریک انصاف کی قیادت اور ورکرز پر نئے مقدمات کا اندراج اور گرفتاریاں بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔ حکومت جس قدر طاقت کے ذریعے احتجاج کو روکنے کی کوشش کرے گی تحریک انصاف کا ورکر اسی قدر چارج ہوتا چلا جائے گا۔ حکومت کی بہترین حکمت عملی مذاکرات کے ذریعے اپوزیشن کو مصروف رکھنا ہوتا ہے۔ حکومت کے پاس تحریک انصاف کو دینے کے لیے کچھ نہیں اور تحریک انصاف حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتی۔
وہ اصل مالکوں سے بات کرنا چاہتی ہے حکومت اور تحریک انصاف اب دوبدو لڑائی پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ دونوں طرف کے بیانات سے ایسے لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں۔ پنجاب کہتا ہے کہ اٹک پل کراس کرکے دکھاؤ۔ وزیر اعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈا پور پنجاب میں داخل ہوا تو گرفتار کر لیں گے۔ خیبر پختون خواہ کہتا ہے تم ایک گولی چلاو گے ہم دس گولیاں چلائیں گے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں پہلے ہی نفرتیں بہت زیادہ پھیل رہی ہیں۔ اگر دونوں صوبوں کی قیادتیں ایک دوسرے کو للکاریں گی تو محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہو گی، نفرتیں بڑھیں گی مرکز اور پنجاب کی اتحادی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سیاست کا جواب سیاسی عمل سے دیں۔ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کو چاہیے وہ اپنے سارے اتحادیوں کے ہمراہ پشاور میں جلسہ کریں جلسے کا جواب جلسے سے دیں۔ خیبر پختون خواہ کی تحریک انصاف کی حکومت کو اس کے گھر میں مصروف کریں تاکہ وہ بھی دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو بلکہ حکمران اتحاد کو چاہیے کہ وہ خیبر پختون خواہ کے ہر شہر میں جلسے کرے تاکہ خیبر پختون خواہ کی حکومت آئے روز سیکورٹی کے انتظامات سے ہی فارغ نہ ہو سکے۔ لیکن حکومت خواہ مخواہ دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے اور تحریک انصاف ہر گزرتے لمحے جارحانہ انداز اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش نہ کرسکنے پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور حالات یہ ہیں کہ اب شاید حکومت یہ بل پاس کروانا تو دور کی بات پیش بھی کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کورا چٹا جواب دے دیا ہے۔ الیکشن کمیشن بہت بری طرح پھنس چکا ہے، وہ اجلاس پر اجلاس کیے جا رہا ہے لیکن راہ نہیں نکل رہی۔ الیکشن کمیشن حکومتی خواہش کے مطابق کسی صورت مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کی طرح(جو بچھڑے کے بارے میں بار بار سوال کرتی تھی کہ بچھڑا کیسا ہو۔ رب سے دوبارہ پوچھیں کہ بچھڑے کا رنگ کیسا ہو، حضرت موسی علیہ السلام ہر بار جاتے اور قوم ہر بار نیا سوال رکھ دیتی۔ بچھڑے کی عمر کتنی ہو وہ کیسا دکھتا ہو۔ الیکشن کمیشن ہر چوتھے دن سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دیتا ہے کہ ہمیں اس نکتہ کی وضاحت کر دیں، اس نکتہ کی وضاحت کر دیں۔ اب دیکھیں الیکشن کمیشن کی نئی وضاحتی درخواست پر سپریم کورٹ کا کیا حکم آتا ہے حکومت کی بانی پی ٹی آئی کے کیس کے آرمی کورٹ میں ٹرائل کی خواہش بھی پوری نہیں ہو رہی۔ دوتہائی اکثریت کے انگور بھی کھٹے ہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی اضطراب کا شکار ہے ان کا گلہ ہے کہ ہمیں جائز مقام نہیں دیا جا رہا۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان کی تقرری پر گورنر اور وزیر اعلی پنجاب میں ان بن چل رہی ہے۔ پس پردہ ایک کھچڑی نہیں کئی کھچڑیاں پک رہی ہیں، بس دیکھتے رہیں۔ کہتے ہیں اب ڈیڑھ ماہ بڑے اہم ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
٭…٭…٭