اب اس امر میں کوئی شک نہیں رہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) اپنے راستے سے بھٹک گئی ہے اوراپنے حقوق کے لیے پُرامن جدوجہدکرنے کی بجائے تخریب کاری اور دہشت گردی کاراستہ اپنا لیا ہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے،لیکن انھوںنے ملک دشمن عناصر کا آلہ کار بن کر دہشت گردی کا ہتھیار آزمانا شروع کر دیا ہے اوران کی اس مذموم تحریک کے پیچھے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت اور افغانستان ہیں۔ یہ پشتون علاقے ، جن میں یہ تحریک چل رہی ہے ، یہ قیام پاکستان کے وقت سے پاکستان کے قانون اور آئین سے باہر تھے،بعد میں یہ علاقے وفاقی حکومت کے زیرانتظام آگئے۔امریکا میںنائن الیون کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا۔افغانستان پر امریکی حملے کے بعدیہ لوگ پاکستان کے ان قبائلی علاقوں میں آگھسے تویہاںدہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پاکستان کوان قبائلی علاقوں میں بار بارفوجی آپریشن کرنا پڑے بلکہ سوات اور مالاکنڈ کے علاقوں میں بھی فوجی آپریشن ہوئے کیونکہ یہ لوگ یہاں تک پھیل گئے تھے۔ پھرپاک فوج نے ضربِ عضب آپریشن کا آغازکیا جس نے تمام شر پسندوں کا قلع قمع کر دیا اور ان علاقوں میں ایسا مثالی امن قائم کیا کہ ان تمام علاقوں اورایجنسیوں کوصوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ اب ان لوگوں کو انتظار کرنا چاہیے تھا اوراپنی صوبائی حکومت سے اپنے عوامی حقوق کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا لیکن ان لوگوں نے تخریب کاری شروع کردی اور بم دھماکوں کے ذریعے دہشت گردی میں ملوث ہوگئے۔
اب پی ٹی ایم کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستان کے خلاف احتجاج کے لیے افغان تارکین وطن کا استعمال کیا جا رہا ہے۔پی ٹی ایم کی بیرون ملک قیادت بشمول افغان تارکین وطن، پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کو منظم کرتے ہیں۔کچھ افغان شہری جو واضح طور پر بھارت نواز رجحانات رکھتے ہیں، مغرب میں پی ٹی ایم کے پروپیگنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ان میں عبدالرحمن حنیف نامی افغان شہری شامل ہے جس کی تقرری حال ہی میں پی ٹی ایم کے امریکا(نیبراسکا) اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر کی گئی ہے، وہ افغان فوج میں بھی خدمات انجام دے چکا ہے۔وہ بھارت اورہندو ازم سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار بھی کرتا ہے۔ یہ امرپی ٹی ایم کے افغانستان اور بھارت کے ساتھ روابط کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان مخالف ایجنڈے کو بے نقاب کرتا ہے۔اسی طرح شریف اللہ شرافت، جو ورجینیا، امریکا میں مقیم ایک افغان شہری ہے، اس کو میری لینڈ ورجینیا کے لیے پی ٹی ایم کا اسٹیٹ کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے۔یہ دونوں افغان شہری پی ٹی ایم کے پاکستان مخالف بیانیے، بشمول پاکستان پر پابندیاں لگانے کی اپیلوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔
یہ بات اب کھل کر سامنے آگئی ہے کہ پی ٹی ایم ایک غیر ملکی حمایت یافتہ پراکسی ہے جس کا مقصد حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے پاکستان کو تقسیم پیدا کرنا ہے، جس کے لیے پاکستان مخالف قوتوں کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کی جاتی ہے۔اسی لیے افغان شہری بھی پی ٹی ایم کے ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں۔حال ہی میں پاکستان دشمن عناصر کی طرف سے اُکسائے گئے افغانوں نے جرمنی میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے میں حصہ لیا، انھوں نے پاکستانی پرچم کی بے حرمتی بھی کی۔
پی ٹی ایم کے مسائل کا وفاق، کسی وفا قی ادارے یا فوج سے کوئی تعلق نہیں، ان کے تمام معاملات اب پشاور میں صوبائی حکومت کے ہاتھ میں ہیں اور وہ اسی سے جو مانگنا ہے ، وہ مانگے۔ پی ٹی ایم کی قیادت کو چاہیے کہ وہ راہ راست پہ آئے، پاکستان میں شر انگیزی کا سلسلہ بند کریں اور پاکستانی فوج کو بد نام کرنے یا پاکستان کے پرچم کی توہین کرنے کا سلسلہ بند کریں۔پی ٹی ایم والوں نے دہشت گردو ں کا انجام دیکھ لیا ہے جو 20 سال تک پاک فوج سے لڑتے رہے لیکن ان کی ایک نہیں چلی اور الحمدللہ جتنے بھی یہ قبائلی علاقے تھے، ان کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اتنی بڑی کامیابی دنیا کی کسی فوج کو آج تک حاصل نہیں ہوئی۔ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی افواج 20 سال تک بیٹھی رہیں ، لیکن بالآخر وہ سر پر پائو ں رکھ کر بھاگ گئے ہیں۔ پاکستانی فوج اللہ کے فضل سے اپنے ملک و قوم کے دفاع و تحفظ کے لیے دہشت گردوں کے سامنے میدان میں ڈٹی ہوئی ہے اور ڈٹی رہے گی ان شاء اللہ۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی ایم والے پشاور حکومت سے بیٹھ کر بات کریں، ان کو اپنی شکایات بتائیں، وہ انھیں رفع نہیں کرتے تو ان سے پھر مذاکرات کریں۔لیکن آپ مظاہرے پاکستان کے خلاف کرتے ہیں،پاکستان نے آپ کا کیا بگاڑ اہے،پاکستان نے تو آپ کے علاقوں میں امن قائم کیا ہے، سڑکیں تعمیر کی ہیں،اب تھانے بنے ہیں، پھر ہسپتال بنیں گے،سکول بنیں گے، کالج بنیں گے، یونیورسٹیاں کھلیں گی، یہ علاقے جدید دور میں داخل ہو جائیں گے ۔ پاکستانی فوج کے ہزاروں افسروں اور جوانوں جبکہ قوم کے70 ہزار افراد نے خون دے کر دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جیتی ہے اور یہ سب کچھ حاصل کیا ہے تو آپ ابھی مزید خون کیوں اور کس مقصد کے لیے چوسنا چاہتے ہیں۔
دراصل مسئلہ حقوق کا نہیں، پشتون قیادت کی سوچ کا ہے جس میں بھارت اور افغانستان نے زہر بھردیا ہے ۔ بھارت کی دشمنی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے ، لیکن افغانستان کا ہم نے کچھ نہیں بگاڑا ، پاکستان کے قیام کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ افغان سفیر نے قائد اعظم ؒ کو اپنی اسناد ِ سفارت پیش کرتے ہوئے ایک انتہائی متعصبانہ اور شر انگیز تقریر کی تھی ۔ شاہ ظاہر شاہ اور سردار دائود کا جھکائو ہمیشہ بھارت کی طرف ہی رہا ۔ پاکستان بنا تو سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان نے اپنے صوبے کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف آواز اٹھائی ۔ خان عبد الولی خان کے والد محترم نے آزاد پختونستان کے قیام کا مطالبہ کیا ۔ تقسیمَ ہند کے اصولوں کے مطابق اس تنازع کو طے کرنے کے لئے ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا ، جس میں سرحدی گاندھی کو شکست ِ فاش ہوئی ۔یوں یہ صوبہ پاکستان کا حصہ بنا۔ مگر خان غفار خان اور اس کے پیروکار سرخ پوشوں کا قبلہ درست نہیں ہوسکا ۔ افغانیوں اور پشتونیوں کا ٹیڑھا پن اب تک لاعلاج ثابت ہورہا ہے ۔