پہلو میں دل کے شور کے ساتھ سنتے آئے ہیں کہ زندگی عناصر میں ظہور ترتیب کا نام ہے اور جب یہ اجزاء پریشان ہو جائیں تو کوئی بھی زندہ نہیں رہ پاتا۔ برج نارائن چکبست تو زندگی کی سریلی تشریح کرکے اپنا شاعرانہ فرض پورا کر گئے۔ لیکن زندگی کے بارے میں سائنسی اور فلسفیانہ تحقیق ابھی تک زور و شور سے جاری ہے اور یہ تحقیق کبھی تو بالکل ہی مفلس کی قبا بن جاتی ہے جس میں ہر گھڑی حیرانیوں کے پیوند لگتے جاتے ہیں۔ ’’زندگی کیسے کام کر تی ہے (How Life works ) ایک انتہائی اہم کتاب ہے جس میں فلپ بال نے بتایا ہے کہ زندگی کے میکنزم کو سمجھنا بہت ہی مشکل کام ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی 80 سالہ بوڑھا کوویڈ کی چیرہ دستیوں سے نمٹ کر پھر زندگی کی رعنائیوں کی طرف لوٹ جاتا ہے تو کبھی 30 سالہ جوان دیکھتے ہی دیکھتے ہنستا مسکراتا موت کی آغوش میں سینکڑوں من مٹی تلے جا سوتا ہے۔ اسی لئے فزکس کی ماہر سارا ایماری کو بھی اپنی کتاب ’’ زندگی جسے کوئی نہیں جانتا‘‘ (Life as no one Knows it ) میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ مادے اور شعور کا یہ مرکب جسے زندگی کہا جاتا ہے درحقیقت ایسی گھتی ہے جو سلجھاتے بھی سلجھنے میں نہیں آ رہی۔ کیونکہ کوئی نہیں سمجھ سکا کہ مادہ زندگی میں تبدیل ہو جاتا ہے یا کوئی پراسرار سا شعور مادے کی ہیئت بدل کر رکھ دیتا ہے۔
بہت سے فلسفی ابھی تک عمر خیام کی رباعی میں اٹکے ہوئے ہیں جو کئی سو برس قبل کہہ گیا ہے کہ ’’زندگی ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے آغاز اور انجام کے صفحات کھو بیٹھی ہے اور ہمیں یہ کتاب درمیان سے پڑھنا پڑتی ہے اور درمیان سے پڑھ کر آغاز اور انجام کے بارے میں اندازے لگانا پڑتے ہے‘‘۔
اس سے بھی سینکڑوں برس قبل فیثا غورث نے تو ’’فتویٰ‘‘ دے ڈالا تھا کہ’’جسم روح کے قید خانے اور غموں کے گھر کے سوا کچھ نہیں جبکہ ایپی کیورس بولا تھا، نہیں زندگی ہنسنے کھیلنے کا نام ہے اور بس…!
چار نابینا افراد کا قصہ یاد آ گیا جو ہاتھی سے جا ٹکرائے تھے۔ اسی طرح جس طرح ہمارے حقیقی عام آدمی جو مہنگائی کے باعث نایاب ہوتے چلے جا رہے ہیں اپنے کسی کام کی وجہ سے اکڑفوں والے افسروں سے جا ٹکراتے ہیں اور منہ کی کھا کر ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ کا ورد کرتے۔’’سخت منع ہے‘‘ کے بورڈوں کے سائے تلے تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں اور حرف غلط کی طرح بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں۔ انکی یاد میں کسی چوک میں شمعیں روشن ہوتی ہیں، سوگ منائے جاتے ہیں اور شمعوں کے گل ہونے سے پہلے ان کی یاد تک کسی اور کے انتظار میں گل ہو جاتی ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی چار نابینا افراد اور ایک عدد ہاتھی کے درمیان ’’ملاقات‘‘ کی۔ چاروں نابینا افراد نے مختلف جگہوں سے ہاتھی کو ٹٹولا۔ سونڈ پکڑنے والے کو محسوس ہوا کہ ہاتھی ایک بڑے اڑدھے جیسا ہوتا ہے ٹانگ پکڑنے والے نے ہاتھی کو گنبد قرار دیا۔ پونچھ پر جس کا ہاتھ پڑا اسے لگا ہاتھی ایک مورچھل جیسا ہوتا ہے اور لپک کر دانت پکڑنے والے نے ہاتھی کو نوکیلے ہتھیار جیسا قرار دیدیا۔ فلسفی ہو، شاعر یا سائنسدان۔ انسان نے زندگی کو محض کسی ایک پہلو سے ہی پرکھا ہے اور جو پہلو جس کے سامنے نمایاں ہو گیا اس نے اسے ہی زندگی قرار دیدیا۔
کیا ہمیں محسوس نہیں ہوتا کہ زندگی کے جو تجربات ہمیں میسرآئے ہیں وہ زیادہ تریہ بتاتے ہیں کہ زندگی اتفاقات کا مجموعہ ہے ورنہ تو ’’ نے باگ ہاتھ میں ہے نہ پاؤں رکاب میں ‘‘ والا معاملہ ہی ہے۔ ہم کبھی کسی راستے کا مسافر بننا چاہتے ہیں تو چیلنجوں پر مشتمل طوفانی اور مستانی ہوائیں ہمیں دھکیل کر کسی اور راستے پر لے جاتی ہیں۔ بڑی بڑی منصوبہ بندیاں اکثر غلام عباس کا افسانہ ’’کتبہ‘‘ بن کر ہمارے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں اور کہتی ہیں کھیل ختم اور جب کبھی ہم حقائق کو نہ ماننے کی ٹھان کر ولیم ورڈر ورتھ کی نظم کی طرح چھ قبروں کے درمیان بیٹھ کر اپنے آپ کو سات سمجھ رہے ہوتے ہیں تو سچائیاں پاس کھڑی فقیروں کا بھیس بناکر ہم پر ہنس رہی ہوتی ہیں۔
زندگی اگر اتنی غیر یقینی ہے، اتنی ناقابل اعتبار ہے اور اتنی دغا باز ہے تو پھر ہم اتنے یقین اور اعتماد سے دوسروں کا حق کیسے کھا جاتے ہیں۔ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ وقت ہر رعونت پر خاک ڈال دیا کرتا ہے ہم اپنے جیسے انسانوں کا ’’خدا‘‘ بننے کے چکر میں انسانیت کے مرتبے سے بھی اتنا نیچے گر جاتے ہیں کہ حیوان بھی ہمیں دیدہ عبرت نگاہ بن کر دیکھتے ہیں لیکن ہم مفت کے پکوان، غریبوں کی کمائی، مظلوموں کے ٹیکسوں کی آمدن اس طرح ہضم کر جاتے ہیں جیسے کوئی مگرمچھ دھوکے سے دریا کنارے پانی پینے آئے معصوم ہرن کو نگل جاتا ہے۔ ہر طرف نفسانفسی اور اس پر ’’سب مجھے چاہئے‘‘ کی صدائیں … آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ ہمیں تو اشرف المخلوقات اور ’’جگ دا شاہ‘‘ بنایا گیا تھا پھر ہم نے اتنی آسانی سے اس منصب سے پستی کی انتہا تک کا سفر کیسے قبول کر لیا؟ ہمیں کس نے یقین دلایا ہے کہ ہم نے اس دنیا میں ہمیشہ کی زندگی جینا ہے جو زہر ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء میں بھر بھر کر دوسروں کو کھلا رہے ہیں وہ لوٹ کر ہم تک نہیں آنا اور ہماری نسلوں نے ان سب غلط کاریوں سے محفوظ رہنا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پوری بستی جل جائے اور صرف ایک گھر محفوظ رہے غریب تو غروب ہو جائے اور اشرافیہ سورج بن کر بلندیوں کو چھوتی رہے۔ یقیناً اتفاقات بھری اس دنیا میں بڑی تندہی اور مستقل مزاجی سے ہم اپنے آپ کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں اور بقول جون ایلیا ہمیں اس پر ملال بھی نہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اتفاقات اور غیر یقینیوں سے بھری اس دنیا سے ایک دن اچانک ’’ بھریا میلہ‘‘ چھوڑ کر ہمیں جانا ہے۔ مجھے تبتی بدھ مت کے پیروکار یاد آ گئے جو خوشگوار زندگی کے ساتھ خوشگوار موت کی بھی تیاری کرتے رہتے ہیں پھر سب سے بڑھ کر دین اسلام بھی اچھی آخرت کیلئے اچھی زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے۔زندگی مادی اشیاء کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہلکان ہو جانے کا نام نہیں ہے بلکہ اطمینان اور سکون قلب کیلئے ضرورت سے زیادہ بڑھی ہوئی مادیت کو ٹھوکر مارنے کا نام بھی ہے۔
دیو جانس کا واقعہ یاد آ گیا جب سکندر اعظم ایک عالم فتح کرکے اپنے حواریوں کے ساتھ سمندر کنارے اس سے ملنے آیا تھا اور بڑے طمطراق سے پوچھا تھا کہ ’’بتاؤ استاد کیا چاہیئے‘‘ اس پر دیو جانس نے صرف ایک جملہ کہا تھا جس میں زندگی کا بہت سارا سبق سمٹ آیا تھا اور وہ تھا ’’سکندر ہٹو اور اپنے حواریوں کو بھی ہٹاؤ۔ دھوپ کا راستہ نہ روکو‘‘
ہمیں بھی چاہئے کہ کسی کے حق کا راستہ نہ روکیں، دھوپ اور روشنی کو سب تک پہنچنے دیں نامعلوم کب پچھتانا پڑ جائے کیونکہ خداؤں کے لہجوں میں بولنے والوں کی رعونت پر خاک تو پڑنا ہی ہوتی ہے۔
ایک کالم زندگی پر
Oct 01, 2024