منگل ‘26 ربیع الاول 1446ھ ‘ یکم اکتوبر 2024ء

6 وفاقی وزارتوں کو ختم کرنے کا فیصلہ۔ ڈیڑھ لاکھ ملازمین متاثر ہونگے‘ وزیر خزانہ۔
وزیر خزانہ کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس سے ملکی معیشت کے حوالے سے پیام امید کے کم اور مرگ امید کے آثار زیادہ نظر آرہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر لگتا ہے حکومت نے من و عن عمل کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نہ عوام کا خیال رکھا گیا نہ اپنی ساکھ کا۔ ورنہ کم از کم ایسے غیرذمہ دارانہ فیصلے نہ کئے جاتے۔ بے شک وزارتوں کی تعداد کم کرنے سے خزانے کو بہت فائدہ ہوگا۔ اخراجات میں کمی آئیگی مگر یہ جو اطلاعات ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ ملازمین بیروزگار ہو جائیں گے‘ اس کا انجام کیا نکلے گا۔ پہلے حکومت کیلئے کونسی آسان راہیں موجود ہیں جو وہ ایک اور راہ کھوٹی کرنے جا رہی ہے۔ کیا پہلے کوئی بندوبست کیا گیا ہے ان ملازمین کا کہ ان کا کیا کرنا ہے۔ اچار ڈالنا ہے یا مربہ بنانا ہے۔ آئی ایم ایف والے تو انہیں تکا بوٹی بنا کر بھوننے کی تیاری کا حکم دے چکے ہیں۔ کیا حکومت واقعی ان سب کو تلنے پر تل گئی ہے۔ پہلے ہی مہنگائی‘ بجلی بل‘ سیاسی انتشار نے ملک کی بقاء دائو پر لگا رکھی ہے‘ اب یہ نیا سیاپا خدا جانے کیا رنگ لائے گا۔ کوئی مرد ان میں نہیں بچا جو وزیر خزانہ کو ایسے فیصلے کرنے سے روکے ٹوکے۔ اگر یہ لوگ بھی بال بچوں سمیت سڑکوں پر آگئے تو کیا ہوگا۔ اس لئے پہلے انکی اشک شوئی کا بندوبست کیا جائے پھر وزارتوں کی بندش والا پیاز کاٹا جائے۔ ورنہ بعد میں خواہ مخواہ آنکھیں اور ناک لال ہو جائیں گے۔
٭…٭…٭
فضل الرحمان کا اپنا آئینی ترمیمی بل لانے کا فیصلہ۔
 ابھی تک حکومت کے پیش کردہ آئینی ترمیمی بل کی دھول آنکھوں سے صاف نہیں ہو رہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے نیا کٹا کھول دیا ہے اور کہ رہے ہیں کہ جے یو آئی‘ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اپنا اپنا یا مشترکہ آئینی ترمیمی بل پیش کریگی۔ ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ موجودہ جعلی اسمبلی کے پاس آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کا مینڈیٹ نہیں‘ وہ اصلی اسمبلی نہیں اسلئے منظوری تو دور کی بات ہے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ حضرت آپ بھی تو اسی جعلی اور نقلی اسمبلی کے ممبر ہیں جہاں ایسے بھاشن دیتے پھرتے ہیں ۔اب جس طرح دوسرے غلط ہیں تو آپ بھی اسی فارمولے کی رو سے ناجائز اسمبلی کے ممبر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے اسی فلور پر مولانا کہہ رہے تھے کہ اب فارم 45 اور 47 والی بحث کو چھوڑیں‘اب یہی اسمبلی درست ہے۔ ہم نے اسی سے کام چلانا ہے۔ خدا جانے اس وقت سورج کہاں سے طلوع ہوتا تھا۔ جب وہ یہ کہہ رہے تھے اور آج کہاں سے نکلتا ہے۔ اب ایک تو پیش ہوا ہے حکومتی آئینی ترمیمی بل۔ دوسرا جے یو آئی کا تیسرا پی ٹی آئی کا‘ چوتھا جماعت اسلامی والوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ یوں تو اسمبلی میں اور کام تو ہوگا نہیں بس یہی بل بل ہی کھیلا جائیگا۔ حکومت اپوزیشن کی نہیں مانے گی اور اپوزیشن حکومت کی۔ یوں آئینی ترمیمی بل کا مردہ بلاگوروکفن نجانے کب تک خوار ہوتا رہے گا۔ یہ نہ ہو کہ اس مردے کے تعفن سے جمہوریت کے تابوت میں بھی کوئی آخری کیل ٹھونکنے آجائے اور اسکی قبر بنا دے۔ ویسے اتنے سارے آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں آئے تو خود ممبران اسمبلی کیلئے مشکل ہو جائیگا کہ وہ کس کی حمایت کریں اور کس کی مخالفت۔ یوں بلیوں کی بندر بانٹ کی جنگ میں کہیں کوئی آکر پنیر نہ اچک لے۔ 
٭…٭…٭
بلوچستان میں مارے جانے والے بے گناہ محنت کشوں کی تدفین پر احتجاج
دہشت گرد کب تک پنجاب والوں کے صبر و تحمل اور برداشت کا امتحان لیتے رہیں گے۔ کب تک پنجاب کے مزدور محنت کش اور غریب دیہاڑی داروں کو اسی طرح بے دردی سے لاوارث سمجھ کر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قتل کیا جاتا رہے گا۔ جب ان بے یارومددگار جنازے انکے آبائی علاقوں میں آتے ہیں تو کہرام مچ جاتا ہے۔ لوگوں کے جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں۔ بے چارے وہاں لوٹ مار یا ڈکیتی و چوری کرنے نہیں جاتے‘ انہیں محنت مزدوری کیلئے جانا پڑتا ہے۔ وہ اپنا خون پسینہ بہا کر بھوکے رہ کر چٹائی پر سو کر روکھی سوکھی کھا کر چند پیسے اپنے گھر والوں کو خرچ کیلئے بھیجتے ہیں۔ اس طرح بہیمانہ اجتماعی قتل کی وجہ سے پنجاب کے عوام کا غم و غصہ خاص طور پر لواحقین کا برحق ہے۔ گزشتہ روز شجاعت آباد میں جب یہ نعشیں پہنچی تو سینکڑوں افراد مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آئے اور ہزاروں افراد نے نماز جنازہ کے بعد قاتلوں یعنی بی ایل اے والوں کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا اور پنجاب سے بلوچستان والی سڑک بلاک کردی۔ قوم پرستی کا یہ بھوت اگر اسی طرح سندھ‘ پنجاب‘ بلوچستان اور سرحد میں رقص کرتا رہے گا تو اس کا انجام سوائے تباہی کے کچھ نہیں نکلے گا۔ کوئی قوم بہت اچھی یا بالکل بری نہیں ہوتی‘ اچھے اور برے ہر جگہ ہوتے ہیں۔ برے لوگ اگر اچھوں پر غالب آجائیں تو حالات بگڑنے لگتے ہیں۔ یہی بی ایل اے اور ملک دشمن عناصر چاہتے ہیں۔ شجاعت آباد میں بھی ایک دکھی بندے نے کہا کہ اگر حکومت کچھ نہیں کر سکتی تو کیا ہم اپنا کیس عالمی عدالت میں لے کر جائیں تاکہ ظالموں کو سزا ملے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفرت کا کاروبار کرنے والے اپنی چالوں میں کیسے کامیاب ہو رہے ہیں
٭…٭…٭
چین والے ایک نئے چاند کو خوش آمدید کہنے کو تیار۔
جس طرح ایک مرد کے دل میں ہمت دیکھ کر محبوبہ کی اور ایک عورت کی الماری سے ایک نئے سوٹ کی جگہ موجود ہوتی ہے‘ اسی طرح ہم زمین والے بھی ہمیشہ ایک نئے چاند کو دل و جاں سے خوش آمدید کہنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ خواہ وہ شوال کا چاند ہو یا ہمارا‘ دنیا کا کوئی چاند چہرہ ‘ اب سائنس دان کہہ رہے ہیں کہ چاند جیسا ایک اور چاند زمین کے قریب آرہا ہے یعنی ہم شب ہجراں کی طرح رات کی تنہائی میں اب ایک نہیں دو چاندوں کا نظارہ کیا کرینگے۔ ایک وہ جو پرانا چاند ہوگا جس پر عرصہ دراز سے بوڑھی اماں جی بیٹھی ہوئی چرخہ کات رہی ہے‘ دوسرے پر معلوم کرنا ہوگا کہ کوئی چاند چہرہ رخ روشن لے کر ہماری حسرتوں اور خواہشوں پر مسکرارہا ہوگا۔ دل جلے ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا:
میں تجھے چاند کہوں یہ مجھے منظور نہیں
چاند کے پاس بھی کیا رکھا ہے داغوں کے سوا
اسکے مقابلے میں جدید دور کا شعر کچھ اور ہی کہتا نظر آتا ہے:
میں نے پوچھا چاند سے کہ دیکھا ہے کہیں‘ 
میرے یار سا حسیں
چاند نے کہا چاندنی کی قسم۔ نہیں‘ نہیں۔
اسی صورتحال میں تو مقابلہ اور سخت ہو جائیگا جب کوئی رات کو ایک طرف ہوگا اور دوسری طرف پہلی رات کا چاند۔ تو شاید پنجابی گیت کا خوبصورت مکھڑا سچ ثابت ہو جائیگا۔ ’’چن چن دے سامنے آگیا‘ میں دوہاں تو صدقے جاواں‘‘ورنہ آج … ہم صرف آسمانی چاند یا پھر کھڑکی سے نظر آنے والے چاند کو دیکھ کر ہی جھک کر سلام کیا کرتے رہے ہیں۔ اب تو چاند کے علاوہ بھی آسمان پر کئی چاندوں کو تکتے نظر آئیں گے۔ مگر یاد رہے :
چاند ملتا نہیں سب کو سنسار میں
ہے دیا ہی بہت روشنی کیلئے
٭…٭…٭
تحفظ دل کا عالمی دن منایا گیا۔ دنیا سمیت پاکستان میں بھی خصوصی تقریبات۔
دل کا کیا کریں صاحب‘ یہ تو ہر ایک کے سینے میں دھڑکتا ہے اس میں ہزاروں خواہشیں مچلتی ہیں‘ سینکڑوں تمنائیں دم توڑتی ہیں۔ 
کیوں اترتے ہیں خواہشوں کے جنازے اس میں۔ یہ میرا دل ہے تمنائوں کا مرکز۔ یہی وجہ ہے کہ ازل سے ابد تک یہ دل ہر ایک کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ شاعر ہوں یا ادیب‘ ڈاکٹر ہوں یا حکیم‘ سب نے اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اور اس کو خوش رکھنے‘ مطمئن کرنیکا مشورہ دیا ہے۔ مگر کیا کریں صدیوں سے دل کی حالت بقول غالب یہ رہی ہے۔ 
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
درد سے بھر نہ آئے کیوں
یہ درد ایسا بے درد ہوتا ہے کہ غم عشق نہ سہی‘ غم روزگار ہی کیوں نہ ہو‘ دل کو بے دل بنا کر رکھ دیتا ہے۔ لاکھوں دل اسی بے قدری کے ہاتھوں پیوند خاک ہو گئے‘ کروڑوں لوگ اپنے خواب آنکھوں میں سجائے قبروں‘ شمشان گھاٹوں تک جا پہنچے‘ دنیاوی بھاگ دوڑ اور حرص نے انسان کو اندھا کر دیا ہے۔ اسے یاد نہیں رہا کہ ’’دلوں کا اطمینان تو خدا کو یاد کرنے میں ملتا ہے‘‘۔ مگر وہ نجانے کہاں درد دل کی دوا طلب کرنے جاتا ہے۔ الٹا اور دل بیمار لے کر واپس آتا ہے۔ کہیں سے شفا نہیں ملتی۔ گزشتہ روز دل کا عالمی دن منایا گیا۔ دنیا بھر میں ماہرین قلب نے خوراک‘ ورزش اور اچھے خیالات کو درد دل کی بہترین دوا قرار دیا۔ مگر دیکھ لیں لاکھوں روپے درد دل کی دائو پر لگانے والے اصل علاج یعنی یاد خدا کو بھول جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دل کی بیماری بڑھ رہی ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن