حضور نبی کریمﷺ نے کھانے پینے میں احتیاط اور اعتدال سے کام لینے کا حکم فرمایا۔ یعنی کہ نہ ہی اتنا کم کھائیں کہ بھوکے رہ جائیں اور نہ ہی بھوک سے زیادہ کھائیں کہ بیماری کا سبب بن جائے۔ اگر کھانے پینے میں اعتدال سے کام نہ لیا جائے تو نعمت زحمت بن جاتی ہے۔
ایک دفعہ ایک بادشاہ نے حضور نبی رحمت ؐ کی خدمت میں ایک حکیم بھیجا کہ وہ وہاں رہ کر لوگوں کا علاج کرے۔لیکن کافی عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی بھی اس کے پاس علاج کے لیے نہ آیا۔ تو وہ حکیم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک عرصہ گزر گیا ہے لیکن میرے پاس کوئی علاج کے لیے نہیں آیا۔آپ نے فرمایا : میرے صحابہ پر جب تک بھوک حاوی نہ ہو جائے تب تک کھانا نہیں کھاتے اور جب تھوڑی بھوک باقی رہ جائے تو وہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔
حضور نبی کریم ﷺ نے بہت زیادہ کھانے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا مسلمان ایک آنت سے کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے۔ ( موطا امام مالک )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے زیادہ کھانے کو فتنہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا : جب کسی قوم کے پیٹ حد سے زیادہ بھر جائیں تو ان کے جسم موٹے ہو جاتے ہیں ان کے دل کمزور ہو جاتے ہیں اور ان کی شہوتیں سر کش ہو جاتی ہیں۔ (الترغیب الترہیب )
حضور نبی کریم نے زیادہ کھانے کو بیماریوں کی جڑ قرار دیا۔(احیا ء العلوم )
حضور نبی کریم ﷺ نے بیماری کی صورت میں علاج کروانے کی ترغیب دی۔ بیماری کی صورت میں علاج کروانا اللہ تعالیٰ پر توکل کے منافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھ کر ظاہری اسباب اختیار کرنا آپ کی سنت مبارکہ ہے۔ حضور نبی کریم ﷺنے بیماری کی صورت میں مایوس ہونے سے منع فرمایا۔ آپ نے فرمایا بڑھاپے اور موت کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج پیدا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری پیدا نہیں فرمائی جس کا علاج پیدا نہ کیا ہو۔ (بخاری)
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :اے اللہ کے بندو دوائی لیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفا پیدا فرمائی ہے۔ مگرایک بیماری کی دوائی نہیں پیدا کی وہ بڑھاپا ہے۔( المعجم الکبیر )۔ ایک روایت میں بڑھاپے کے ساتھ موت کا لفظ بھی آیا ہے یعنی موت اوربڑھاپے کی کوئی دوا نہیں۔ مسند امام احمد میں ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس طرح بیماری پیدا کی اسی طرح اس کی دوا بھی پیدا فرمائی لہذا تم دوا کا استعمال کیا کرو۔