مشرقِ وسطیٰ جنگ کی لپیٹ میں عالمی برادری خاموش تماشائی

امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے تعاون اور آشیرباد سے مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں ناجائز ریاست اسرائیل کی دہشت گردی کا سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے جاری ایک تازہ بیان میں اس صورتحال کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ حسن نصراللہ کی شہادت پر ردعمل دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ لبنان میں تشدد سے خطے کے عدم استحکام میں اضافہ ہوگا، مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی مہم جوئی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ شہری آبادیوں پر اس قسم کے حملے بین الاقوامی قوانین کی پامالی ہے، یہ حملے اور عالمی قوانین کی پامالیاں تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہیں، اسرائیلی افواج کئی روز سے لبنان کی خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی افواج سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ حملوں سے متاثرہ افراد، ان کے خاندان اور لبنان کے عوام سے گہری تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں سے باز رکھے، سلامتی کونسل مشرق وسطیٰ میں امن بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
ادھر، لبنان پر غاصب صہیونیوں کی بمباری سے مزید  45 افرداد شہید جبکہ 50 زخمی ہوگئے۔ دہشت گرد ریاست اسرائیل نے یمن پر بھی حملے شروع کر دیے جس میں 4 افراد کے شہید اور 87 دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیلی طیاروں نے بندرگاہ اور دیگر مقامات پر بم برسائے۔ یمن میں راس عیسیٰ اور حدیدہ کے علاقوں میں حوثیوں کے فوجی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ غاصب اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ جنوبی بیروت پر حملے میں حسن نصر اللہ کے علاوہ حزب اللہ کی 20 سینئر شخصیات بھی شہید ہوئیں۔ حسن نصراللہ، علی کرکی اور نبیل قاووق سمیت متعدد شخصیات کی شہادت کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انھوں نے حسن نصراللہ کے سکیورٹی یونٹ کے سربراہ ابراہیم حسین جزینی اور حزب اللہ کے سربراہ کے مشیر اور قریبی ساتھی سمیر توفیق دیب کو بھی شہید کردیا ہے۔ غاصب اسرائیلی فوج نے جنوبی بیروت میں حزب اللہ کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقے ضاحیہ میں مزید فضائی حملے کیے ہیں۔
دوسری طرف، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حسن نصراللہ کی موت کو تاریخی موڑ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حسن نصراللہ کا قتل خطے میں طاقت کا توازن بدلنے کے لیے ضروری تھا۔نیتن یاہو نے اسرائیل پہنچنے پر قوم سے خطاب میں کہا کہ وہ رواں ہفتے اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ حزب اللہ پر موجودہ حملے کافی نہیں کیونکہ حسن نصراللہ نہ صرف ایران کے اشارے پر کام کرتے ہیں بلکہ ایران کو آپریٹ کرتے ہیں۔ دہشت گرد نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ان گنت اسرائیلیوں اور بہت سے غیر ملکی شہریوں کی موت کے ذمہ داروں سے بدلہ لیا ہے، جو آپ کو مارنے کے لیے کھڑا ہو، پہل کرکے اسے مار ڈالو۔ اسرائیلی وزیراعظم نے مزید کہا کہ پورے مشرق وسطیٰ نے اسرائیل کی طاقت تسلیم کرلی ہے، ایران خبردار رہے، اسرائیل پر حملے کا فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایرانی سرکاری ٹیلی ویڑن کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ لبنان میں حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد اسرائیل امن نہیں دیکھے گا۔ اسرائیل کی اس کارروائی نے صہیونی حکومت کے زوال کو تیز کر دیا، امریکا اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ اسی طرح، روسی وزیرخارجہ سرگی لاروف نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کہا کہ لبنان میں جو کچھ ہوا وہ دہشت گردانہ حملہ تھا، حسن نصراللہ کے قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ امریکا اس میں ملوث تھا۔
اس میں کوئی شک نہیںامریکا نے اسرائیل کی شکل میں مشرقِ وسطیٰ میں اپنی ایک پراکسی تیار کی ہوئی ہے جس کے ذریعے وہ پورے خطے میں بد امنی پھیلا رہا ہے لیکن اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کا کردار افسوس ناک ہے۔ اس سے بھی زیادہ گھناؤنا کردار مسلم ممالک کے وہ حکمران ادا کررہے ہیں جو کھوکھلے مذمتی بیانات جاری کر کے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے ذریعے ان کا حق ادا ہورہا ہے۔ پون صدی سے زائد عرصے سے جاری ناجائز صہیونی ریاست کی کارروائیوں سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ یہ مسئلہ بیانات اور مذاکرات سے حل ہونے والا نہیں ہے اور اس کے لیے مسلم ممالک کو اکٹھے ہو کر میدانِ عمل میں اترنا پڑے گا۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کو اسلحہ اور گولا بارود مہیا کر کے صاف انداز میں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں اسرائیل کے ساتھ ہر ممکن تعاون کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں مسلم ممالک کا خاموش تماشائی بنے رہنا ایک جرم ہے۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں جس طرح جنگ کو بڑھا رہا ہے اس صورتحال کو عالمی طاقتوں اور اداروں، بالخصوص اقوام متحدہ کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں عالمی طاقتوں کا خاموش رہنا اسرائیل کو کرہ ارض کی تباہی کے لیے دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا کردار انتہائی مایوس کن ہے۔ مسلمانوں کی بقاء کے لیے اب مسلم دنیا کو آگے آنا ہوگا۔ اگر اب بھی مصلحت کا لبادہ نہ اتارا گیا تو ایک ایک کر کے سب اپنی تباہی کے لیے بھی تیار ہو جائیں کیونکہ الحادی قوتیں مسلمانوں کے خلاف متحد ہوچکی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن