وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران نا صرف دہشتگردی سے متاثرہ پاکستان کا مقدمہ پیش کیا بلکہ عالمی برادری کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کے لئے کشمیریوں اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر انسانی حقوق اور جمہوریت کے چیمپئن ہونے کا دعوی کرنے والے ترقی یافتہ ممالک کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے انہیں غیرت دلانے کی کوشش کی کہ دنیا کے نقشے ہر ابھرنے والی ناجائز ریاست اسرائیل جس انداز میں معصوم فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور ان کی نسل کشی میں مصروف ہے اس کو برداشت کرنا بزدلی اور بے حسی کے مترادف ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ غزہ میں بہت بڑا المیہ رونما ہو رہا ہے۔ وہاں بچے زندہ دفن ہو رہے ہیں اور جل رہے ہیں لیکن دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ پاکستان اس تنازع کا دو ریاستی حل چاہتا ہے جس میں آزاد فلسطینی ریاست میں 1967 کی جنگ سے پہلے کے علاقے شامل ہوں اور بیت المقدس اس کا دارالحکومت ہو۔ اقوامِ متحدہ فلسطین کو مکمل رکن تسلیم کرے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے لبنان کی صورتِ حال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں 500 سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اپنے خطاب میں پاکستان کے وزیرِ اعظم نے کشمیر کی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے بھارت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ خطے میں امن کے لیے بھارت کو پانچ اگست 2019 کو کیے گئے اقدامات واپس لینا ہوں گے۔ کشمیر کا تنازع اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق طے کرنا ہو گا اور اگر بھارت نے کسی مہم جوئی کی کوشش کی تو پاکستان بھر پور جواب دے گا۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا مکمل خاتمہ کریں گے جس کے لیے آپریشن عزمِ استحکام شروع کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو دنیا سے کیے گئے وعدے پورا کرنا ہوں گے۔ خواتین کے حقوق اور دہشت گردی کے سدِباب کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ان کے بقول طالبان حکومت کو افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپس کی سرحد پار کارروائیوں کو روکنا چاہیے۔ وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ افغانستان میں داعش، القاعدہ، مجید بریگیڈ اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے گروپ سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے۔جبکہ پاکستان کا واضح مؤقف ہے دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی خواہ اس میں غیر ریاستی عناصر ملوث ہوں یا اسے کسی ریاست کی سرپرستی حاصل ہو ہر طرح کی دہشت گردی کی پاکستان نے ہمیشہ مخالفت کی ہے اور اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے جنگی جرائم کے خلاف پاکستان نے اس بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی زبردست احتجاج ریکارڈ کرواکرنہتے فلسطینیوں کی انسانیت سوز ہلاکت کی باآواز بلند مذمت کی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے غزہ اور لبنان میں جاری جارحیت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے اسرائیلی وزیراعظم کا خطاب شروع ہوتے ہی پاکستانی وفد سمیت جنرل اسمبلی سے واک آؤٹ کر دیا۔وزیراعظم شہباز شریف کے خطاب کے بعد جیسے ہی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اپنے خطاب کیلئے پہنچے پاکستانی وفد نے اپنا احتجاج عالمی فورم پر ریکارڈ کروادیا۔ اس سے قبل اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے گھر ملبے کے ڈھیر بن گئے، دنیا آنکھیں کیسے بند رکھ سکتی ہے، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ غزہ کے لوگوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا،فلسطین کو فوری طور پر اقوام متحدہ کا مستقبل رکن تسلیم کرنا ہوگا،صرف مذمت کرنا کافی نہیں، ہمیں اس خونریزی کو فوری روکنا ہوگا۔ غزہ کے المناک سانحہ نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، معصوم بچوں، عورتوں اور نہتے شہریوں کے قتل پر خاموش نہیں رہا جا سکتا، اسرائیلی جارحیت کو طوالت دینے والوں کے ہاتھ بھی غزہ کے بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، نہتے فلسطینیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، عالمی برادری کو پائیدار امن اور دو ریاستی حل کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیراعظم نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر بائیڈن، ترکی کے صدر طیب اردوان سمیت ممتاز عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کیں، اس کے علاوہ سائیڈ لائن ملاقاتوں کے علاوہ ماحولیات کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ عالمی برادری کی جانب سے ہونے والے امتیازی سلوک پر بھی آواز اٹھائی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کاربن کے اخراج والے ممالک کی فہرست میں سب سے نیچے ہے لیکن ماحولیاتی آلودگی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات پر عالمی برادری کو اپنے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔