اسرائیلی جارحیت فلسطین سے نکل کر مشرق وسطی کے اسلامی مماک تک پھیلنے لگی مسلم امہ کو سدباب کیلئے متحد ہو کر متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگااسرائیل کیجانب سے حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ انکی بیٹی کی شہادت تمام امہ کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے اور عملی اقدامات کیلئے تمام مسلم ممالک کو سر جوڑنا ہونگے اقوام متحدہ کو بھی ان واقعات کا سختی سے نوٹس لیکر اپنامؤثرکردار ادا کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم پاکستان کیجانب سے اسرائیلی جارحیت پر کھل کر تنقید اور واک آؤٹ کے اقدام نے نہا صرف پاکستان کے مؤقف کو واضح کیا ہے بلکہ دنیا بھر میں دہشت گرد اسرائیل کا مکروہ چہرہ بھی ایک بار پھرعیاں کر دیا۔ پاکستان سمیت دیگراسلامی ممالک کیجانب سے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی گئی ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیلی کے جنگی جرائم کیخلاف سخت اقدامات کئے جائیں۔
اسرئیل کے ہاتھوں ایک اور فلسطینی رہنماء حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد دنیا بھر کی طرح پاکستان بھر میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے اوراسلام آباد لاہور کراچی اور دیگر شہروں میں غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی ملک بھر کی مذہبی وسیاسی جماعتوں اورمختلف مکاتب فکر کی جانب سے اسرائیلی جارحیت پراسے ''عالمی دھشت گرد'' قراردیاگیاحسن نصراللہ کی حزب اللہ کی قیادت کرنے والے شیخ حسن نصر اللہ کو مشرق وسطی میں ایک طاقتور شخصیت کے طور پر جانا جاتا تھا جنہوں نے حزب اللہ کو ایک انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم بنایاحسن نصراللہ پر اسرائیل نے لبنان کے درالحکومت بیروت پر اب تک کا سب سے بڑا حملہ کیا جس میں حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا گیا جس کا بنیادی مقصد شیخ حسن نصراللہ کو مارنا تھاحزب اللہ کے سربراہ کی شہادت سے متعلق مسلم ممالک بالخصوص ایران کیجانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیااسرائیلی حملے کے بعد ان کی موت کی تصدیق کی جاتی رہی اسرائیل کی جانب سے حملے کے بعد یہ دعوی کیا گیاکہ بیروت حملے میں حسن نصراللہ کی شہادت ہوگئی ہے ۔ ایرانی میڈیا نے اس حملے میں پہلے ان کے محفوظ ہونے کی اطلاعات دی لیکن بعد میں انکی جانب سے تصدیق کر دی گئی ۔ حملے کے بعد حزب اللہ کے اپنے ذرائع نے بھی غیر ملکی خبررساں اداروںکو بتایا کہ تنظیم کے سربراہ حسن نصراللہ سے ان کا رابطہ نہیں ہو رہا اور وہ ان تک پہنچ نہیں پارہے۔ 64سالہ حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کے اہم ترین کمانڈر کے طور پر اس مزاحمتی تنظیم کو نہ صرف دفاعی طور پر مضبوط کیا بلکہ لبنان کی سیاست میں بھی اہم کردار دلوایا ہے حسن نصراللہ ایک پرجوش اور جوشیلے خطیب ہیں جنہوں نے اسرائیل سے مقابلے کے لیے ایران میں شیعہ مذہبی رہنماؤں اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کیا حزب اللہ کے سربراہ کو لبنان کی طاقتور ترین شخصیت سمجھتے تھے جن کے پاس ایک لاکھ سے زائد جنگجو ہیں اور ان کے گروپ کے افراد ارکان پارلیمنٹ بھی ہیںحسن نصر اللہ کا خاندان ان کی اہلیہ تین بچوں کے بیروت کے ایک متوسط علاقے میں رہتے ہیںان کا بڑا بیٹا ہادی 1997میں 18برس کی عمر میں اسرائیلی حملے میں شہید ہوگیا تھا ایران کی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اللہ نے اسرائیلی حملے میں اپنے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کی تصدیق کردی جب کہ اسرائیل نے بیروت حملوں میں ان کے علاوہ دیگر سینئر رہنماؤں کو شہید کرنے کا دعوی کیا میڈیا رپورٹس میں بتایا گیاکہ بیروت پر اسرائیلی فوج نے 5،5ہزار پاؤنڈ کے بم برسائے ایف 35لڑاکا طیاروں نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا سات گھنٹے تک وقفے وقفے سے ہونے والی بمباری کے نتیجے میں کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں میڈیا رپورٹس میں دعوی کیا گیا کہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں ممکنہ حملوں کا الرٹ جاری کردیا گیا اور اس حوالے سے بم شیلٹرز کھول دیے گئے فضائی دفاعی نظام کو بھی ہائی الرٹ کردیا گیا غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ملک میں ہی انتہائی محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ایران لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے، تاکہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اگلے اقدام سے متعلق فیصلہ کیا جاسکے حسن نصرااللہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ تنظیم کی قیادت اس بات کا عزم کرتی ہے کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرنے، غزہ، فلسطین کی حمایت، لبنان اور اس کے ثابت قدم اور قابل احترام عوام کے دفاع میں اپنا جہاد جاری رکھے گی۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں خون ریزی کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔ اب غزہ کے ساتھ ساتھ لبنان کا دارلحکومت بیروت بھی اس کی جارحیت کا نشانہ بن گیا ہے،یمن میں بھی اس نے فضائی حملہ کر دیا ہے ،مگر عالمی اداروں کو اپنے رکن ممالک کی امن وسلامتی کی کوئی پروا نہیں۔ لبنان میں حسن نصراللہ کی شہادت کے روز فضائی حملوں کا یہ سلسلہ تقریبا پانچ گھنٹوں تک جاری رہا جب کہ اسرائیل نے بیروت کے جنوبی مضافات اور لبنان کے دیگر علاقوں پر فضائی حملے کیے۔ میڈیا پر گویا اسرائیلی فوج اپنی قابلیت کا دھونس جماتی رہی۔ حزب اللہ کے جن 140سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا اس میں وہ انفرا اسٹرکچر بھی شامل ہے جو بیروت کی رہائشی عمارتوں کا حصہ بتایا گیا۔میڈیا کے مطابق حملے کے روز بیروت میں صبح طلوع ہونے سے پہلے اور طلوع آفتاب کے بعد 20سے زیادہ فضائی حملوں کی آوازیں سنی گئیں۔ حزب اللہ کے زیر کنٹرول جنوبی مضافاتی علاقوں سے دھواں اٹھتا دیکھا گیا جب کے بعد اسرائیلی فوج نے دعوی کیا حملوں میں حسن نصر اللہ مارے گئے ہیں ان کیساتھ حزب اللہ کے میزائل یونٹ کے کمانڈر محمد علی اسماعیل اور ان کے نائب حسین احمد اسمٰعیل بھی ہلاک ہوگئے ۔اسرائیل کی جانب سے ان حملوں کے بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان مقامات سے محفوظ مقامات کی طرف چلے گئے۔، یہ نہتے شہری بیروت کے مرکز اور سمندر کے کنارے کے علاقوں میں چوکوں، پارکوں اور فٹ پاتھوں پر جمع دیکھے گئے ۔اس سے قبل اسرائیلی فوج نے لبنان کی سرحد سے تقریبا 10 میزائل اسرائیل میں داغے جانے کا کہاتھا جن میں سے کچھ کو روک لیا گیا تھا۔اسرائیل کی جانب سے بیروت پر حملوں سے چند گھنٹوں قبل اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران بھی حملے جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک حزب اللہ جنگ کا راستہ منتخب کرتی ہے ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو حق حاصل ہے ۔
حسن نصراللہ کی شہادت پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے
Oct 01, 2024