’’خبر‘‘ ان دنوں پارلیمان کے ایوانوں یا حکومتی دفتروں میں نہیں بنتی۔ ’’تاریخ ساز‘‘ فیصلہ سازی کا مرکز بلکہ اب کئی برسوں سے سپریم کورٹ آف پاکستان بن چکا ہے۔ آغاز اس کی مرکزیت کا افتخار چودھری کے دنوں سے ہوا تھا۔ موصوف کو چند فائلیں دکھا کر جنرل مشرف نے اپنے طاقت ور ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھ کر استعفیٰ دینے کو مجبور کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے ’’انکار‘‘ کردیا۔ اس کے بعد جو ہوا حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے سے کیا حاصل۔
افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد مگر وطن عزیز میں حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والوں نے دریافت یہ کیا کہ آئین کی آٹھویں ترمیم کے ختم ہوجانے کے بعد کسی منتخب وزیر اعظم کو تھلے لگانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ان کی ’’اوقات‘‘ میں لانے کے لئے صدر وزیر اعظم کو کرپٹ ٹھہراکر برطرف کردیا کرتے تھے۔ سپریم کورٹ عموماََ صدارتی عمل کو جائز ٹھہرادیتی۔
فقط ایک بار نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کرنے کے عمل کے خلاف فیصلہ سنایا۔ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹنے کے باوجود نواز شریف کو مگر استحکام نصیب نہ ہوا۔ ان دنوں کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ مداخلت کو مجبور ہوئے۔ نئے انتخابات کی بدولت مگر بے نظیر ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے دفتر پہنچ گئیں۔ انہیں فاروق لغاری نے بطور صدر برطرف کیا تو نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی اپنے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کو ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کردیا۔ اسی باعث صدر کے ہاتھوں برطرف ہونے کے بجائے وہ 1999ء میں جنرل مشرف کے لگائے مارشل لاء کے ذریعے گھر بھیجے گئے۔
جنرل مشرف کے بعد سے جو سیاسی بندوبست متعارف ہوا وہ افتخار چودھری کی ’’عوامی تحریک کی بدولت‘‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر واپسی کی وجہ سے بتدریج ایسا رخ اختیار کرنا شروع ہوگیا جس نے عدلیہ کو منتخب پارلیمان اور حکومت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بنادیا۔ یوسف رضا گیلانی کی فراغت کے بعد نواز شریف کی تیسری حکومت جو عمران خان اور طاہر القادری کے 126دنوں تک جاری رہے دھرنے کے روبرو بھی سرنگوں نہیں ہوئی تھی، پانامہ دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑی ہوگئی۔ازخود نوٹس کے ذریعے عدلیہ نے نوازشریف سے ’’رسیدیں‘‘ طلب کیں۔ اس مطالبے کو عمران خان کی جماعت نے عوامی تائید وحمایت فراہم کی۔ ریاستی اداروں نے نظر بظاہر سپریم کورٹ کے ایما پر نواز شریف کو برطرف کروانے میں مدد دینے والا ’’اقامہ‘‘ بھی دریافت کرلیا۔
عمران حکومت کو اگست 2018سے اکتوبر 2021تک عدلیہ اور ریاستی اداروں کا بھرپور تعاون میسر رہا۔ ’’سیم پیج‘‘ کی اصطلاح ان ہی دنوں متعارف ہوئی تھی۔ عمران خان مگر اس سے مطمئن نہ ہوئے۔ ’’خودمختاری‘‘ دکھانے کو مچل گئے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کے ذریعے اپنا ختیار ثابت کرنے کی کوشش کی۔سولو پرواز میں لیکن ناکام رہے۔ عدلیہ کو ان کی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اسی باعث ہماری تاریخ میں پہلی بار تمام اپوزیشن جماعتوں نے باہم مل کر قومی اسمبلی میں ایک تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ اس تحریک کو قاسم سوری نے ’’قومی سلامتی‘‘ کیلئے خطرہ ٹھہراتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ عدلیہ کو لہٰذا متحرک ہونا پڑا۔ ’’آئینی تقاضوں‘‘کے نام پر تحریک عدم اعتماد پر گنتی کروانے کا حکم صادر ہوا اور عمران خان وزیر اعظم نہ رہے۔
تحریک عدم اعتماد پر گنتی کروانے کے حکم کے خلاف عاشقان عمران خان جس انداز میں چراغ پا ہوئے اس نے عدلیہ کو اپنے’’امیج‘‘ کے بارے میں پریشان کردیا۔ عمر عطاء بندیال نے ’’ہم خیال ججوں‘‘ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف سے گویا معافی تلافی کی راہ ڈھونڈنا شروع کردی۔ یہ کاوش سپریم کورٹ میں گہری تقسیم کا سبب ہوئی۔ اندھی نفرت وعقیدت اب ہمیں ججوں کو اِس یا اْس سیاسی فریق کا سہولت کار تصور کرنے مجبور کررہی ہے۔
انصاف فراہم کرنے والے اعلیٰ ترین ادارے کے بارے میں ایسے تاثر کا فروغ سوچنے سمجھنے والوں کیلئے انتہائی پریشان کن ہونا چاہیے تھا۔ ایسا مگر ہو نہیں رہا۔ خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مختص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے 8ججوں کی جانب سے سنائے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں تقسیم کا تاثر بلکہ سنگین تر ہورہا ہے۔ حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد کو ہرگز تیار نہیں۔ اس ضمن میں آئین اور قانون کی بنیاد پر جو اعتراضات وہ اٹھاتی ہے خالصتاََ قانونی اعتبار سے واجب قرار دئے جاسکتے ہیں۔ سیاست مگر قانونی قواعد وضوابط کی پابند نہیں ہوتی۔ جذبات وتاثرات اس کے بنیادی عناصر ہیں۔ تحریک انصاف کے بدترین مخالفین بھی دل سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس جماعت کے تائید یافتہ نمائندوں کو 8فروری 2024ء کے روز عوام کی حیران کن تعداد نے بلے کے انتخابی نشان سے محروم ہوجانے کے باوجود منتخب کیا تھا۔ فہم عامہ کا لہٰذا تقاضہ ہے کہ انہیں ملے اجتماعی ووٹوں کے تناسب سے مذکورہ جماعت کو خواتین و غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستیں الاٹ کردی جائیں۔
کامن سنس پر مبنی اس سوچ کو ’’مکمل انصاف‘‘ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے 8اکثریتی ججوں نے عملی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ ’’مکمل انصاف‘‘ کا تصور مگر حکومت کی نگاہ میں ’’نیا آئین‘‘ لکھنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ قضیہ اب ’’نصابی‘‘ نہیں رہا۔ صحافیوں اور تبصرہ نگاروں سے تقاضہ ہورہا ہے کہ کھل کر بیان کریں کہ وہ اکثریتی فیصلہ تسلیم کرنے کو تیار ہیں یا نہیں۔ اسے تسلیم کرتے ہوئے بھی دیگر فریقوں کے اعتراضات کا ذکر کرو تو حکومتی چمچہ ہونے کے طعنے ملتے ہیں۔ درمیانی راہ اختیار کرنا ممکن نہیں رہا۔ کھل کر بتانا پڑتا ہے کہ آپ ’’عدلیہ کی آزادی‘‘ کے حامی ہیں یانہیں۔ اگر حامی ہیں تو حکومت کو 8اکثریتی ججوں کے سنائے فیصلے پر عملدرآمد کو مجبور کیوں نہیں کررہے۔ کاش ہم دو ٹکے کے رپورٹروں کے لکھنے یا بولنے سے ریاستی قضیے حل ہوجایا کرتے۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ معاملہ اب اِس یا اْس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد تک محدود نہیں رہا۔ ریاست کے اب تک طاقتور ترین تصور ہوتے ادارے سنجیدگی سے طے کربیٹھے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی کے نام پر درحقیقت ’’عدلیہ کی بالادستی‘‘ کے تصور کو فروغ دیا جارہا ہے۔ عدلیہ کو لہٰذا قواعد وضوابط کی لگام ڈالنا ہوگی۔ اسی باعث آئین میں بے تحاشہ نئی ترامیم متعارف کروانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ یہ ترامیم متعارف نہ ہوپائیں تو کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب فراہم کرنے سے معذرت کا طلب گار ہوں۔ بے بس ولاچار رعایا کیلئے انتظار ہی میں عافیت ہے۔