اسرائیل نے حسن نصراللہ سمیت حزب اللہ کی صف اوّل کی ساری قیادت خوفناک بمباریوں کے ذریعے ختم کر دی ہے۔ حسن نصراللہ کے ہیڈ کوارٹرز جن بموں سے حملہ کیا گیا، ان کے بارے میں پہلے سنا ہی نہیں تھا اور اطلاع یہ ہے کہ یہ بم بہت ہی خاص قسم کے تھے جو امریکہ نے اسرائیل کو دئیے۔ یہ بم عمارت کو ملبے کا ڈھیر نہیں بناتے بلکہ ایسے غبار میں بدل دیتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہاں کبھی کوئی عمارت موجود تھی۔ حزب کے ڈیڑھ ہزار جنگجو بھی شہید کردئیے گئے ہیں، اس سے زیادہ معذور ہو چکے ہیں لیکن اس سب کے باوجود حزب کی جنگی مشینری موجود ہے۔ اس کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے لیکن وہ ختم نہیں ہوئی اور کام بھی کر رہی ہے اور اس کی طرف سے مسلسل اسرائیل کو راکٹ میزائل حملوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کا نقصان اسرائیل کو بہت کم ہو رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ راکٹ گرتے ہیں تو آگ لگ جاتی ہے، عمارت نہیں گرتی۔ یعنی یہ تباہ کن راکٹ نہیں ہیں۔ جانی نقصان نہ ہونے کی وجہ سے اسرائیل کا شیلٹر سسٹم ہے جو اتنا بڑا ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک کے پاس نہیں ہے۔ امریکہ اور جاپان کے پاس بھی نہیں۔ جونہی جنوبی لبنان سے میزائلوں کی بوچھاڑ آتی ہے، متعلقہ علاقے میں سائرن بجتے ہیں اور اگلے دو اڑھائی منٹ میں تمام کے تمام لوگ اپنے اپنے قریبی شیلٹرز میں چھپ جاتے ہیں ، پھر کوئی شامت کا مارا ہی ہوتا ہے جو مارا جائے ورنہ سبھی بچ جاتے ہیں۔
ان راکٹوں سے اسرائیل کو خاص خطرہ نہیں، پریشانی البتہ ضرور ہے کہ بار بار بھاگم بھاگ لگی رہتی ہے۔ اسرائیل کو خطرہ ان ہائپر سونک میزائلوں سے ہے جو حوثیوں کے پاس موجود ہیں۔ انہیں آئرن ڈوم بھی نہیں روک سکتا کیونکہ ان کی رفتار بے پناہ ہے۔ 20 ،22 ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ۔ ایسا ایک میزائل حوثیوں نے چلایا۔ ایسے مزید کتنے حوثیوں کے پاس ہیں، کسی انٹیلی جنس ادارے کو نہیں پتہ۔
لبنان میں حزب اللہ کا انفراسٹرکچر قریب قریب مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے سوائے ان زیر زمین راکٹ خانوں کے جہاں سے حملے ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے اپنی حالیہ بمباریوں سے دنیا کو خوفزدہ کر دیا ہے، اور انہی کامیابیوں سے بدمست ہو کر اسرائیل نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ اس کے لمبے ہاتھ دنیا میں ہر جگہ، ہر کسی کی گردن تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ بڑا بول ہے جو اس نے بولا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ طاقتور اپنی طاقت کے وحشیانہ استعمال سے اتنے تباہ نہیں ہوتے جتنے بڑا بول بولنے سے برباد ہوتے ہیں۔ ان گنت مثالیں ہیں۔ ایسا ہی بڑا بول ہٹلر بھی بولا کرتا تھا اور پھر ایک دن اس نے دیکھا کہ تین اطراف سے لمبے ہاتھ خود اس کی گردن تک پہنچ گئے۔
_____
غزہ کے بعد لبنان میں بھی اسرائیل نے قتل عام شروع کر دیا ہے اور اس قتل عام کو جینوسائیڈ بلکہ نسلی صفائی کا نام دیا جانا چاہیے۔ ہٹلر نے یہودیوں کے خاتمے کے پراجیکٹ کو فائنل سالوشن کا نام دیا تھا۔ غزہ میں یہودی اسی فارمولے پر عمل کر رہے ہیں اور اب لبنان میں بھی ہر روز سینکڑوں افراد قتل کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ برطانیہ فرانس ہٹ کے بدّھن کے نعرے لگا کے اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ امریکہ اسے وہ ہتھیار دے رہا ہے جو خود اس نے بھی استعمال نہیں کئے۔ دو عرب ملک ریالوں اور دیناروں سے بھرے جہاز اسرائیل کو د ے رہے ہیں ، ترکی تیل، صاف پانی، پھل ، خوراک اور لوہے کا سامان اسرائیل پر نچھاور کر دیا (اور تقریروں میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت بھی کر رہا ہے ، ایک آنکھ دبا کر) چین اور روس بظاہر اسرائیل کو خوب برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن نظر ان کی بھی اسی بات پر ہے کہ اسرائیل کو کوئی گزند نہ پہنچ جائے۔
_____
غزہ اور لبنان کے بعد اسرائیل نے شمالی یمن کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تین روز پہلے اس نے اعلان کیا تھا کہ شمالی یمن کی ناکہ بندی کی جائے گی اور اسے کوئی ایرانی کمک پہنچنے نہیں دی جائے گی اور اب اس پر عمل شروع ہے۔ شمالی یمن کی واحد بندرگاہ الدیدہ کو اس نے ایک طویل بمباری میں تباہ کر دیا۔ درجنوں طیاروں نے مسلسل بمباری کی۔ ایران کی طرح شمالی یمن کے پاس بھی فضائی دفاع کے نام کی کوئی شے نہیں۔ ایران نے جنگی مہمات پر ، گزشتہ پچاس برسوں میں اربوں نہیں، کھربوں ڈالر خرچ کئے ہیں لیکن حیرت ہے کہ فضائی دفاع پر اس نے کچھ بھی خرچ نہیں کیا۔ اس کے پاس ناکارہ ہوائی جہازوں کی ائیر فورس ہے جو صرف ان علاقوں پر بمباری کر سکتی ہے جہاں کوئی مارٹر توپ ہو نہ طیارہ شکن میزائل۔ اس فضائیہ کو نام نہاد ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل نے دو بار ایران پر فضائی حملہ کیا اور ایران اسرائیلی جہازوں پر ایک گولی تک نہ چلا سکا۔ ایران کی معیشت عالمی پابندیوں سے زیادہ شمالی یمن، لبنان اور شام کی مہمات پر بے پناہ اخراجات سے کمزور ہوئی ہے۔
_____
پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ شام اور لبنان میں ایرانی کنٹرول حزب اللہ کا مرہون منت ہے۔ حزب تباہ ہوئی تو یہ کنٹرول بھی متاثر ہو گا۔ چنانچہ واحد راستہ اپنے کنٹرول کو قائم رکھنے کا ایران کے پاس یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو روکے، اس پر جوابی حملہ کرے لیکن وہ ایسا کر سکتا ہے نہ کرنا چاہتا ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت سے دو روز قبل حزب کے وفد نے ایران سے رابطہ کر کے درخواست کی کہ اسے ایران کی ’’ایکٹو‘‘ مدد کی ضرورت ہے۔ ایران نے جواب دیا کہ ایسا کرنے سے اس کی اسرائیل سے جنگ چھڑ جائے گی جو فی الحال ہمارے مفاد میں نہیں۔ ایرانی صدر نے تو صاف بیان دیا کہ ہم اسرائیل سے جنگ نہیں چاہتے۔ اس کے بجائے ایران نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے جنگجو بڑی تعداد میں لبنان بھیجے گا۔ یہ اقدام نتیجہ خیز نہیں ہو گا۔
_____
شمالی یمن کی ناکہ بندی کیلئے اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے باب لمندب اور بحیرہ روم دونوں پر جاسوسی نظام بٹھا دیا ہے۔ ایرانی ہتھیار اور تیل عراق اور شام کے راستے بحیرہ روم کے ساحلوں پر جاتا ہے، وہاں سے بذریعہ نہر سویز بحیرہ قلزم جس کے سال پر الحدیدہ کی بندرگاہ ہے۔ دوسری طرف خلیج سے بحیرہ ہند اور پھر باب المندب کے راستے سے اسرائیل۔اس طرح حوثیوں کو کمزور کر دے گا لیکن شمالی یمن جغرافیائی طور پر ایسا ملک ہے جس پر غیر ملکی قبضہ ممکن نہیں (کم از کم ازحد مشکل ضرور ہے)۔ چنانچہ حوثیوں کا اقتدار بدستور قائم رہے گا البتہ عوام کی حالت خراب ہو جائے گی۔ لبنان پر سے حزب اللہ کا کنٹرول دن بدن ختم یا مدہم ہوتا جائے گا جس کے اثرات شمالی اور وسطی شام پر بھی پڑیں گے۔ شام میں اخوانیوں نے سر اٹھایا تو ترکی میں اردگان کی حکومت کو بھی پریشانی ہو گی جو عوام کی اکثریت کی حمایت پہلے ہی کھو بیٹھی ہے لیکن اسرائیل فی الوقت اردگان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوششوں کو اپنے جاسوسی نیٹ ورک کی مدد سے روکے رکھے گا۔ اس تبصرے میں آپ کو کوئی اچھی بات پڑھنے کو نہیں ملی، اس لئے کہ فی الحال کوئی اچھی بات ہے ہی نہیں۔