حسن نصر اللہ کو بھی شہید کر دیا گیا اور ہم یہاں سوشل میڈیا پر اس شہادت کا سوگ منا رہے ہیں، اس سے پہلے ایران کے صدر کو شہید کیا گیا، فلسطین میں گذرے چند ماہ کے دوران ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، بچوں کو شہید کیا گیا، بزرگوں کو تکلیف پہنچائی گئی خواتین کی عزتوں کے ساتھ کھیلا گیا لیکن اس عرصے میں مسلم امہ نے سوائے مذمتی بیانات کے کچھ نہیں کیا۔ دشمن ایک ایک کر کے مسلمانوں کے بہادر جنگجوؤں کو نشانہ بناتے جا رہے ہیں، دہائیوں تک مزاحمتی تحریکوں کی سربراہی یا قیادت کرنے والوں کی شہادت ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے اور یہ سبق آموز ہے کہ کاش ہم یہودیوں، عیسائیوں اور کافروں کی اس تکون کو سمجھیں جس نے ہمیں ہر طرف سے جکڑ رکھا ہے۔ یہ بنیادی طور پر مذاہب کی جنگ ہے اور اسلام مخالف جتنی بھی طاقتیں ہیں وہ متحد ہو کر مسلمانوں کو ختم کرنے کی حکمت عملی کے تحت کام کرتی ہیں۔ فلسطین میں مسلمانوں کا بہتا خون دیکھ کر بھی امت مسلمہ کو اگر یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے، کب تک ہوتا رہے گا، اس کا حل کیا ہے، اس کا علاج کیا ہے، اس ظلم کو کیسے روکنا ہے، اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے تو کچھ ہو نہیں سکتا، امت مسلمہ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کیا ہمیں قرآن سے یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کا خون بہتا رہے اور ہم مذمتی بیانات جاری کر کے خود کو بڑی الذمہ سمجھیں، کیا قرآن اورنبی کریم ؐ کی مبارک سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی گردنیں کٹ رہی ہیں تو امت مسلمہ کی قیادت صرف بیانات جاری کرتی رہے، کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگیوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم خاموش رہیں، یا صرف رو دھو کر ایک طرف ہو جائیں۔ امت مسلمہ کی قیادت کو جان لینا چاہیے کہ ہمیں مسلمانوں کی مسلسل شہادت، مسلمانوں پر مسلسل ظلم ہو رہا ہو تو خاموشی یا مذمتی بیانات کا سبق نہیں ملتا۔ ہمیں اس معاملے میں یاد رکھنا چاہیے
قرآن کریم کی سورہ الفتژ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں‘‘
سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
’’اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کوآج ہمیں کس چیز کا خوف کھائے جا رہا ہے، جو مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں ہم انہی سے انصاف کی توقع کرتے ہیں، جو مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں گے‘‘
’’اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک ان ہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا‘‘
ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ مسئلہ کسی زمین کا نہیں ہے، یہ مسئلہ اللہ کے احکامات کو نہ ماننے والوں اور اللہ کے ایک ماننے والوں اور محمد رسول اللہ کو آخری نبی ماننے والوں کے درمیان ہے جو اللہ کو ایک مانے گا، جو اللہ کو وحدہ لاشریک کہے گا جو محمد رسول اللہ کو آخری نبی مانے گا دنیا میں اس عقیدے کی مخالفت کرنے والے سارے متحد ہو کر اس کے خلاف لڑیں گے اور وہ لڑ رہے ہیں۔ بھلے وہ مقبوضہ کشمیر ہو بھلے فلسطین ہو سارے اسلام دشمن ان معاملات میں ایک ہیں اور اگر کوئی متحد نہیں ہے تو وہ بدقسمتی سے مسلمان ہیں جو کہ آج بھی اتنا خون بہہ جانے کے باوجود بھی فرقوں میں تقسیم ہیں۔ کوئی سنی ہے دیو بندی ہے، شیعہ ہے وہابی ہے لیکن یہ سب نہیں سمجھتے کہ اسلام دشمن انہیں نشانہ بناتے ہوئے کوئی مسلک نہیں دیکھتے وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے اور وہ بنائے جا رہے ہیں۔
تاجدار انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد ؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ باہمی محبت اور رحم وشفقت میں تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، جب انسان کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے جسم کے تمام اعضاء بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
آج شام، لبنان، یمن، مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے اور ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔
حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد غم و غصہ تو ہے لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے ان کا ایک انٹرویو میں سنا جس میں وہ اسرائیل کو انگلینڈ اور امریکہ کا ایک مہرہ قرار دیتے ہیں، وہ اسلحہ انڈسٹری کے حوالے سے بات کرتے ہیں، یہودیوں اور عیسائیوں کے گٹھ جوڑ کا ذکر کرتے ہیں۔ سو حسن نصر اللہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ اسرائیل ہر جگہ حملے کرے مسلمانوں کا خون بہائے اور اس ظلم پر امریکہ کا صدر جو بائیڈن یہ کہے کہ انصاف ہو گیا ہے یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ لبنان اور یمن پر حملے ہو رہے ہیں حسن نصر اللہ کے بعد لبنان میں ہونے والے اسرائیلی فوج کے حملے میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے اہم رہنما فتح شریف ابوالامین بھی شہید ہو گئے ہیں۔ اب امریکہ کے صدر جو بائیڈن امن کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا مقصد صرف حزب اللہ کی قیادت کو نشانہ بنانا تھا، امریکہ یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ اس ظلم کے بعد لوگ ہتھیار ڈال دیں گے۔ ایسی کارروائیاں نفرت کو ہوا دیتی ہیں۔ ایسی کارروائیوں اور ظلم کے بعد لوگوں میں انتقام کی آگ بھڑکتی ہے۔ یہودی ہوں، عیسائی ہوں یا پھر کافر ہوں یہ سب مل کر متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف کام کرتے ہیں۔ آج بھی یہی ہو رہا ہے۔ امت مسلمہ کو جاگنا اور متحد ہونا ہے اس کے بغیر کچھ نہیں ہو گا۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے مطابق امریکی اور یورپی حکام وعدے کر رہے تھے کہ اگر ایران اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا ردعمل نہیں دیتا تو جنگ بندی ہو جائے گی لیکن یہ سبھی وعدے جھوٹے تھے۔ ایرانی صدر نے اسرائیلی جرائم کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے حالیہ حملے نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی اصول وضوابط کا پابند نہیں ہے۔
ایرانی صدر کے اس بیان نے حقائق واضح کیے ہیں کہ اس تکون کا مقصد صرف مسلمانوں کا خون بہانا ہے۔ حماس اور حزب اللہ کی قیادت کو نشانہ بنانے کے بعد امریکہ کیوں جنگ بندی کی سوچ رکھتا ہے۔ اسی میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں آپ جتنا مرضی بچنے کی کوشش کریں جانا اس طرف پڑے گا جہاں جانے سے آپ بچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہی دشمنان اسلام دھکیلیں گے۔
آخر میں سلیم کوثر کا کلام
کہیں تم اپنی قسمت کا لکھا تبدیل کر لیتے
تو شاید ہم بھی اپنا راستہ تبدیل کر لیتے
اگر ہم واقعی کم حوصلہ ہوتے محبت میں
مرض بڑھنے سے پہلے ہی دوا تبدیل کر لیتے
تمہارے ساتھ چلنے پر جو دل راضی نہیں ہوتا
بہت پہلے ہم اپنا فیصلہ تبدیل کر لیتے
تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کر لیتے
تمہاری طرح جینے کا ہنر آتا تو پھر شاید
مکان اپنا وہی رکھتے پتا تبدیل کر لیتے
وہی کردار ہیں تازہ کہانی میں جو پہلے بھی
کبھی چہرہ کبھی اپنی قبا تبدیل کر لیتے
جدائی بھی نہ ہوتی زندگی بھی سہل ہو جاتی
جو ہم اک دوسرے سے مسئلہ تبدیل کر لیتے
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہم بول اٹھے ورنہ
گواہی دینے والے واقعہ تبدیل کر لیتے
بہت دھندلا گیا یادوں کی رم جھم میں دل سادہ
وہ مل جاتا تو ہم یہ آئینہ تبدیل کر لیتے