تجزیہ: ندیم بسرا
معیشت کی درستگی، آئینی ترمیم، پی ٹی آئی کے جلسوں، نئے انتخابات کا دبائو اور اتحادیوں کے ساتھ روابط میں تلخی جیسے بڑے چیلنجز وفاقی حکومت کے سر پر منڈلارہے ہیں مگر حکومت کے مشیروں کے پاس اس کا فوری حل نکلتا نظر نہیں آرہا جس سے حکومتی حلقوںمیںبے چینی کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔ حکومتی وزراء اور مشینری اس دبائو سے نکلنے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگارہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو قائم ہوئے 8ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر حکومت ایک روز بھی سکھ کا سانس نہیں لے پائی، موجودہ دنوں میںسب سے بڑا دبائو پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ہینڈلرز کی جانب سے ہے جو نہ صرف حکومت کی تمام کارکردگی کو روزانہ کی بنیاد پر تنقید الزامات کا نشانہ رہی ہے بلکہ عالمی سطح پر پراپیگنڈا میں مصروف عمل ہیں۔ پی ٹی آئی مختلف انتظامی اور حکومتی پابندیوں کے باجود، کبھی سرگرمیوں کی اجازت نہ ملنے، کبھی جلسوں میں رکاوٹوں جیسی شکایات کے باعث اپنے جلسوں میں وہ عوامی طاقت کا اتنا مظاہرہ تو نہیں کرسکی جو ماضی میں اس کی پہچان رہی ہے اس کے باوجود سیاسی، عوامی اور طاقتور حلقوں میں زیادہ زیر بحث ہے۔ حکومت ان کے دبائو کو کم کرنے کے لئے نت نئی پالیسیاں تیار کررہی ہیں۔ دوسری جانب بعض سیاسی لوگوں کا خیال ہے کہ طاقتور حلقے بھی حکومتی اقدامات، حکمت عملی پر سوال اٹھا رہے۔ جس سے حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ’’آئینی ترمیم کے معاملے کو حکومت آسان ہدف سمجھ رہی تھی۔ ایسا خیال کرتے تھے کہ وہ یہ آئنی ترمیم پارلیمنٹ سے باآسانی منظور کروالیں گے، مگر فضل الرحمان کے پی ٹی آئی کی قیادت سے مسلسل رابطوں کے بعد ان کے تندوتیز بیانات پارلیمنٹ جعلی، نئے الیکشن فوری کروائے جائیں اور آئینی ترمیم ناانصافی ہے‘‘ نے حکومت کے آئین کے ترمیم کے آسان ہدف کو مشکل ترین بنادیا ہے۔ ماضی میں حکومتیں اور ان کے اتحادی حکومت سے سالوں گزرنے کے بعد حکومت سے گلے شکوے کرتے تھے مگر موجودہ حکومت کے اتحادیوں نے حکومت کے رویوں کی شکایات مہینوں میں ہی شروع کردی ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی نالاں ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفی کمال نے یہ کہا ہے کہ حکومت ہمیں عزت نہیں دے رہی ہم حکومت سے علیحدہ ہوسکتے ہیں اور اسمبلیوں سے اپنے استعفی بھی دے سکتے ہیں، وفاق کے بعد پنجاب کے گورنر سلیم حیدر بھی وائس چانسلرز کی تعیناتی کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں، وفاقی حکومت کو اس سارے معاملے پر پھونک پھونک کر قد م اٹھانا پڑیں گے اور انہیں اپنے سیاسی مذاکراتی لوگوں کو مکمل متحرک اور بااختیار بھی کرنا پڑے گا کہ وہ اتحادیوں کے ساتھ سیاسی معاملات کو ٹھیک کروائیں کیونکہ ملک اس وقت مزید بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا ،حکومت کی معاشی ٹیم تو اپنے اہداف حاصل کررہی ہے جس کی حالیہ بڑی مثال آئی ایم ایف کی طرف سے ملنے والی امداد کی بڑی رقم ہے۔ معاشی ٹیم کے ساتھ سیاسی ٹیم کو بھی مضبوط کیا جائے، اسی صورت میںملک آگے بڑھ سکتا ہے۔