بانی ¿ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا، جس پر بھارت نے تقسیمِ ہند کے ساتھ ہی قبضہ کر لیا تھا۔ بابائے قوم کو مکمل ادراک تھا کہ شہ رگ پر دشمن کا ہاتھ ہو تو زندگی اس کے رحم و کرم پر ہوتی ہے اسی لیے انہوں نے کشمیر دشمن کے پنجے سے آزاد کرانے کے لیے پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل گریسی کو بھارت کے ساتھ نبردآزما ہونے کا حکم دیا۔ جنرل گریسی نے بوجوہ کشمیر پر چڑھائی نہ کی۔ اس کا م¶قف تھا وہ ابھی تک فیلڈ مارشل اکلینلک کے زیر کمانڈ ہے جو بھارت کا آرمی چیف ہے۔ ایک ہی کمانڈر کی کمان میں دو فوجیں کیسے لڑ سکتی ہیں؟ بہرکیف ایک مرتبہ کشمیر کو قوتِ بازو سے حاصل کرنے کا فیصلہ مو¿خر ہو گیا۔ تاہم مجاہدین نے اس حصے پر قبضہ ضرور کر لیا جس کو آج آزاد کشمیر کی حیثیت حاصل ہے۔ انہی مجاہدین کو قائداعظم نے پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا۔ مجاہد پاک فوج کی غیر اعلانیہ مدد سے ہو سکتا تھا کہ سری نگر پر بھی پاکستانی پرچم لہرا دیتے لیکن بھارت بھاگا بھاگا یو این او پہنچ گیا جس نے جنگ بندی کرا دی اور مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل کشمیریوں کے لیے استصواب کی صورت میں تجویز کیا، جس پر عمل سے بھارت 65 سال لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ دوسری طرف آزادی مانگنے پر کشمیریوں کو بڑی بے رحمی سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اب تک آزادی کی تڑپ لیے ڈیڑھ لاکھ کشمیریوں کو موت کی وادی میں پہنچا دیا گیا ہے۔ عزت مآب خواتین کی بے حرمتی کو بھارتی ظالم فوج نے معمول بنا لیا ہے۔ اجتماعی قتل کی وارداتیں، اجتماعی قبروں کی دریافت سے انسانیت کا منہ چڑا رہی ہیں۔ کشمیریوں کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کشمیر کب کا پاکستان بن چکا ہوتا اگر ہمارے حکمران کشمیر کے حوالے سے قائداعظم کی پالیسی کو مشعل راہ بناتے۔
بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان کو ایسی قیادت نہ مل سکی جو کشمیر کو آزادی دلا کر پاکستان کا حصہ بنا دیتی۔ اکثر قیادتیں مصلحت کا شکار رہیں جو بھارت پر فریفتہ ہو کر مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی قربانیوں کو بھلا بیٹھیں بعض تو بے غیرتی کی حد تک بھارت کے سامنے ریشہ ختمی ہو گئیں۔ البتہ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی خاطر ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان کرکے قوم کے اندر کشمیر کی آزادی کی ایک نئی امنگ اور ولولہ پیدا کر دیا۔ وہ آزادی¿ کشمیر دوسرے لفظوں میں پاکستان کی شہ رگ دشمن کے پنجہ استبدادسے چھڑانے کے لیے تیاری کرنے لگے۔ ایٹمی قوت کا حصول اسی کی ایک تیاری تھی۔ ان کی زندگی میں ایٹم بم بن گیا ہوتا تو یقینا کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کیا گیا تو مسئلہ کشمیر بھی ڈوب گیا۔ ان کے بعد آمریت اور جمہوریت اپنی باریاں لیتی رہی لیکن پاکستان کی بقا کے دو معاملات میں ایک قدم بھی پیشرفت نہ ہو سکی۔ ایک مسئلہ کشمیر اور دوسرا کالاباغ ڈیم کی تعمیر۔ مسئلہ کشمیر پر جنرل مشرف نے بڑے بے معنی قسم کے حل تجویز کیے، اکثر بھارت کے مفاد میں تھے لیکن بیل اس لیے سرے نہ چڑھ سکی کہ بھارت آزاد کشمیر کو بھی اپنا اٹوٹ انگ قراردیتا ہے۔
مشرف میں اتنی جرا¿ت نہیں تھی ، آزاد کشمیر بھی بھارت پر وار دیتا۔ مشرف سے قبل اور بعد کی حکومتوں نے بھی مشرف کی طرح نہ صرف مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کیا بلکہ کشمیریوں کی قربانیوں کا سودا کرتے ہوئے بھارت سے دوستی لگانے اور اس کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کی کوششوں میں موجودہ حکمران تو حد سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ وزیر تجارت کو بھارت کے ساتھ تجارت کا خبط، وزارتِ خارجہ کو دوستی کا جنون ہے اور یہ مل کر بھارت کو پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے کے لیے بے قرار ہیں۔ حالانکہ یہ اس لیجنڈ کے جاں نشین ہونے کے دعویدار ہیں جس نے کشمیر کی خاطر ہزار سال تک جنگ لڑنے کا عزم ظاہر کیا اور اس کی تیاری کی۔ آج ایٹم بم ان کی دسترس میں ہے ان پر اس کی حفاظت بھاری پڑ رہی ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ جس کو قائداعظم نے دشمن قرار دیا اور قائد عوام نے دشمن سمجھا اسی دشمن کے ساتھ تجارت، تعلقات اور دوستی کو آگے سے آگے لے جانے کی اپنی سی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی مسلمہ ہے۔ اس کے باوجود اس پر ریشہ ختمی ہو جانا ایک سمجھ میں نہ آنے والا معمہ ہے۔ جو دشمن آپ کا وجود برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اس سے ڈاکٹر عاصم حسین گیس ، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات خریدنے کے معاہدے کر رہے ہیں۔ امین فہیم تجارت میں خسارے کے باوجود تجارت کے لئے پرعزم ہیں۔ اربوں ڈالر کا سالانہ خسارہ ہو رہا ہے۔ تجارت منافع کی بھی ہو بھارت جیسے پاکستان اور اسلام کے دشمن کے ساتھ تو نہیں، ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ میں ایسے دشمن کو کیسے دوست تسلیم کر لوں
ظلمت کو ضیائ، صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس ہما کیا لکھنا