خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے صوبے سے ڈینگی کے مکمل خاتمے کا عزم صمِیم کر لیا ہے اور کل ) 2 ستمبر کو ( پنجاب بھر میں ” یومِ انسدادِ ڈینگی “منانے کا اعلان کر دیا ہے۔میاں صاحب نے تمام سرکاری دفاتر کُھلے رکھنے کا حُکم دیا ہے اور بذریعہ اشتہارات اہلِ پنجاب سے بھی اپیل کی ہے کہ ” آﺅسب مِل کے ----- ڈینگی کے خاتمے کے لئے اپناکردار ادا کریں ! “گذشتہ دو سال سے میرے سوہنے دیس پنجاب میں‘موذی مچھر ڈینگی نے اپنی انسان دشمن سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں۔ہر طرف ڈینگی ڈینگی ہو رہی ہے۔مائیں کیا‘ ہر گھر کے بزرگ نہ صِرف بچّوں کو‘ بلکہ گھر کے ہر فرد کو ڈینگی کا نام لے کر ڈراتے ہیں۔ یہاں تک کہ عوام کے ڈر کو دیکھ کر حکومت بھی ڈری ہوئی ہے۔ شاعر نے کہا تھا----
” میکدے سے جو بچ نکلتا ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے“
صورت یہ ہے کہ جو شخص خودکُش حملہ آوروں‘ چوروں‘ ڈاکوﺅں‘ پولیس والوں اور قدرتی موت سے بچ جاتا ہے وہ ڈینگی کا شکار ہو جاتا ہے۔نوبت بہ اِینجا رسید ‘ کہ لوگ اب حکومت سے روٹی‘ کپڑا اور مکان نہیں مانگتے صِرف جان کی ایمان مانگتے ہیں ہے‘ یعنی اُن کی خواہش ہے کہ وہ ڈینگی کے ہاتھوں نہ مر جائیں‘ لیکن زندگی اورموت کا اختیار تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے‘ بے چاری حکومت کیا کرے۔؟
ہمارے کئی ادیب‘ شاعر اور دانشور کہتے اور لکھتے رہتے ہیں کہ فلاں دور میں فلاں بیرونی حملہ آور نے پنجاب پر حملہ کیا‘ پھراُس نے دہلی کے تخت پر قبضہ کر لیا۔حملہ آور وںکا کام ‘حملہ کرنا اور تخت پر قبضہ کرناتھا۔ اُن میں سے بہت سے حملہ آور اور قابض‘ سُلطان اور خاقان بن گئے۔ جاہ پرست عُلماّنے انہیں ” ظّلِ الٰہی“ بنا دیااور اُس کے درباری بن گئے۔جمہوری دور میں حملہ آوروں اور قابضوں کا طریقہ کار بدل گیا ۔وہ مین گیٹ یا بیک ڈور سے اقتدار کے رنگ محل میں داخل ہوتے ہیں اور بعض اوقات ڈینگی سے زیادہ خطر ناک ثابت ہوتے ہیں۔ عوام کو جان‘ مال اور عِزت کی حفاظت کی ضمانت نہیں دیتے۔انہیں اور اُن کے بچوں کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں نہیں دیتے۔ روز گار فراہم نہیں کرتے۔ اُن کا کام قومی خزانے سے خیانت کرنا اور قومی دولت لوٹ کر بیرونی بنکوں میں جمع کرانا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسے کرپٹ سیاستدانوں کو ” ڈینگی سیاستدان“کہہ سکتے ہیںیا نہیں؟۔
ڈینگی‘ حملہ آور ضرور ہے‘ لیکن اُس کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے‘یعنی انسانوں کو ڈنک مارنا‘ انہیں ڈنک مارکر‘بیمار کرنااور اگر ڈاکٹراُسے نہ بچا سکیں تواُسے موت کی وادی میں دھکیلناہے۔ ڈینگی حملہ آور ضرور ہے لیکن وہ حکومت پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا‘ اُسے چوری‘ ڈاکہ اور بھتہ خوری کا شوق نہیں۔ اُس کا کوئی قبضہ گروپ نہیں اور نہ ہی وہ اقتدار پسند ہے۔ اِس نُکتے پر ساری ڈینگی قوم متفق اورمتحد ہے کہ انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا جائے۔ ڈینگی مچھروں میں کوئی فِرقہ نہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی دھڑا ‘یا فارورڈ گروپ۔ کوئی ڈینگی کسی دوسرے ڈینگی کے خلاف پرنٹ یا الیکڑانک میڈیا پر کوئی بیان نہیں دیتا اور نہ ہی لانگ مارچ یا ٹرین مارچ کی دھمکی دے کر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک ڈینگی نے مجھے خواب میں بتایا کہ ” تمہارے مُلک کے سیاستدان جو کچھ کرتے ہیں‘ ہم اُس سے پرہیز کرتے ہیں“۔
پنجابی فلم ” مولا جٹ“ میں وِلن نما ہیرو‘ سلطان راہی کا تکیہ کلام تھا کہ ” اوئے مولے نوں مولا ) اللہ تعالیٰ( نہ مارے تے مولا نہیں مردا“ پنجاب پر حملہ کرنے والا ڈینگی‘ مولا جٹ کی طرح بڑھک نہیں مارتا‘ بلکہ ڈنک مار کر انسان کو ختم کر دیتا ہے۔ وہ خادمِ اعلیٰ کی تقریروں کو خاطر میں نہیں لاتا اور نہ ہی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنے خلاف اشتہارات پڑھتا ہے۔ اُس کے پاس فالتو وقت ہی نہیں ۔ڈینگی‘ خُود کُش حملہ آور سے زیادہ چالاک ہے۔ خُود کُش حملہ آور‘ جب دوسرے انسانوں کو ہلاک کرنے کے لئے حملہ کرتا ہے تو خود بھی مر جاتا ہے لیکن ڈینگی اپنے شکار کو بیمار کر کے اُس کی جان لے لیتا ہے لیکن خود نہیں مرتا یہی اُس کا کمال ہے۔وہ منیر نیازی ) مرحوم( کے فلسفے سے اختلاف رکھتا ہے‘ جنہوں نے کہا تھا۔
” کُجھ شہر دے لوک ‘وی ظالم سن
کُجھ مَینوں مرن دا ‘شوق وی سی“
ڈینگی کو مرنے کا کوئی شوق نہیں ہے‘ اُسے تو مارنے کا شوق ہے۔پنجاب کے سرکاری‘ نیم سرکاری یا غیر سرکاری داروں کی طرف سے گذشتہ سال ڈینگی کو مارنے کے لئے‘ دواﺅں کا جو سپرے کیا گیا تو ڈینگی پر اُس کا بہت کم اثر ہوا۔ کِتنا بے شرم ہے ڈینگی---- ! اوپر سے دانت بھی نکالتا ہے۔ پتہ چلا کہ زیادہ تر دوائیں جعلی تھیں۔ 1258 ءمیں جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو اسیر خلیفہ مستعصم باللہ نے اُسے کہا ” تم یہاں سے چلے جاﺅ‘ ورنہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تم پر نازل ہو گا۔“ ---- تو ہلاکو خان نے جواب دیا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا وہی عذاب ہوں جو تم پر نازل ہوا ہوں۔خادمِ اعلیٰ کے ساتھ ڈینگیوں کے” ہلاکو خان“ کااِس طرح کا کوئی مکالمہ نہیں ہوا۔ اِس لئے ڈینگی بُزدل قوم ہے‘ چُھپ کر وار کرتی ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا----
” مارتا ہے تِیر‘ تاریکی میں صیادِ اجّل“
ڈینگی بھی صیادِ اجلّ کا سفیر یا نمائندہ بن کر تاریکی میں ڈنک مارتا ہے۔ صبح‘ دوپہر اور شام کو بھی‘ جب انسان اپنے جسم سے لاپرواہ ہو۔ ڈینگی نے انسان کوڈنک مارنے کا کوئی وقت مقرر نہیں کر رکھاہے۔ وہ کوئی کلاسیکی سِنگر تو نہیں کہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ فلاں فلاں وقت پر اُسے کون کون سا راگ اور کون کون سی راگنی گانا ہے۔
نمرود بادشاہ کی موت) جِس نے خُدائی کا دعویٰ کیا تھا( ایک مچھر کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ مچھر‘ نمرود کی ناک کے راستے اُس کے دماغ میں گُھس گیا تھا۔ حکِیموں کے مشورے سے نمرود کے سر پر ‘روزانہ جوتیاں ماری جاتی تھیں‘تب اُسے سکون ملتا تھا۔ نمرود اور ڈینگی میں ” مُک مُکا“نہیں ہو سکا۔چنانچہ جب نمرود کا جوتیاں کھانے کا کوٹہ ختم ہو گیا تو وہ خودبھی ختم ہو گیا۔ فی الحال ” ماہرینِ مچّھریات“ نے اِس بات کی تحقیق نہیں کی کہ‘ نمرود کی موت کی وجہ بننے والا مچھر‘ ڈینگی تھا یا کسی دوسری نسل کا؟ کیا ہی اچھا ہو کہ خادمِ اعلیٰ پنجاب ‘وزیر قانون رانا ثناءاللہ کی سربراہی میں اور پرویز رشید‘ احسن اقبال‘ خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق پر مشتمل ایک کمِشن قائم کریں۔ یہ کمِش 30 دِن کے اندر رپورٹ پیش کرے کہ نمرود کے دماغ میں گُھس کر ‘اُس کی جان لینے والا مچھر ڈینگی تھا یا کسی دوسری نسل کا؟ یہ رپورٹ صدرِ پاکستان محترم آصف علی زرداری کی خدمت میں بھی پیش کی جائے اور اگر وہ اجازت دیں تو‘ اُسے عام کر دیا جائے۔