ہندوئوں کی ذہنی پستی … اور منافقانہ طرز عمل

Sep 01, 2013

پروفیسر محمد مظہر عالم

گزشتہ چند دنوں سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی عسکری قیادت جس انداز سے پاکستان کیخلاف جارحانہ طرز عمل اپنائے ہوئے ہے اور بھارتی قیادت اسکے زیر اثر ہماری حکومت کے مثبت طرز عمل کو غیر مناسب انداز سے اہمیت نہیں دے رہی یہ درحقیقت نئی سوچ نہیں بلکہ ہندوستان کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ ہمیشہ سے ہی ہندوئوں میں دوغلا پن رہا ہے‘ اگر کانگرسی قیادت مسلمانوں کیساتھ اعتدال کی راہ پر چلنا چاہتی تو ہندوئوں کی انتہا پسند تنظیم مہاسبھا اس کو غیراہم کردیتی اور مسلمان اس دوغلی پالیسی کی بدولت کسی مثبت نتیجہ پر نہ پہنچ پاتے، اس سلسلہ میں چند حقائق قارئین کے پیش نظر رہیں۔1916ء کے میثاق لکھنؤکے تحت مسلمانوں نے قائداعظم کی قیادت کے تحت اپنے اکثریتی صوبوں بنگال اور پنجاب میں متناسب نمائندگی کی قربانی دیتے ہوئے جداگانہ طرز انتخاب کوکانگرس سے تسلیم کروایا، مگر چند سالوں بعد جب قائداعظم نے 1927ء کے بجٹ سیشن میں جداگانہ طرز انتخاب کو وقتی طور پر ترک کرنے کا محض اس لئے ارادہ ظاہر کیا کہ سندھ کو ممبئی سے الگ صوبہ اور پنجاب اور بنگال میں آبادی کیمطابق نمائندگی اور مرکز میں 1\3 نمائندگی کی تجاویز موتی لال نہرو کے توسط سے تسلیم کئے جانے کے قریب تھیں اور کانگرسی قیادت خصوصاً گاندھی نے ان سے اتفاق نہ کیا اور یہ کہہ کر قائداعظم کی تجاویز کو رد کر دیا کہ وہ تجاویز تو موتی لال نہرو کی ذاتی رائے تھی۔ اسی طرح بے شمار واقعات اور ہندوئوں کے طرز عمل سے پیدا ہونیوالے خدشات کے پیچھے اصل ہندوانہ سوچ ہے، اس کی بنیادی وجہ وہی ضرب المثل ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ والی بات ہے۔ہندوئوں کی دماغی کیفیت کے بارے میں نرادسی چودھری اپنی تصنیف دی کانٹینٹ آف کرائسس میں رقم طراز ہیں۔’’عمر بھرکے مشاہدات نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچایا ہے کہ ہندوئوں کے دماغ میں کوئی گڑبڑ ہے۔ کوئی انسان ہندو کو ایک نارمل انسان سمجھ کرانکے انفرادی اور اجتماعی طرز عمل کے متعلق صحیح رائے قائم نہیں کر سکتا۔ ہندوئوں کی روزمرہ کی سرگرمیوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے دماغ میں فتور ہے، اگر ان کی اجتماعی زندگی کو دیکھا جائے تو بالکل ہی واضح ہوجاتا ہے کہ ان کے دماغ کا کوئی پرزہ کام نہیں کر رہا‘‘۔حیران ک امر یہ ہے کہ گاندھی جیسے ہندوئوں کے مستند لیڈر بھی اکثر اپنی ذہنی کم مائیگی اور عدم تحفظ پر مبنی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے بھی ہندوئوں کے مجموعی طرز عمل کی عکاسی کرتے۔
’’22 اکتوبر 1939ء کو سٹیٹسمین میں ان کا ایک بیان چھپا ’’تھوڑی دیر کے لئے غور کیجئے کہ انگریز اچانک ملک کو خالی کر دیں تو کیا ظہور پذیر ہو گا؟اگر ملک میں حکومت کرنے کے لئے کوئی بیرونی حکومت موجود نہ ہو تو اس بات سے انکار کرنا مشکل ہے کہ پنجابی خواہ وہ مسلمان ہوں یا سکھ ہندوستان کو اپنی جولان گاہ بنالیں گے۔ہم نے ملک میں جمہوریت کا خود ڈھونگ رچا رکھا ہے تو وہ صرف انگریز کی سنگینوں کی امداد پر منحصر ہے۔ پس اگرکسی کو یہ ضرورت ہے کہ کسی طاقت ور عنصر کی دست برد سے ملک کو بچانے کے لئے انگریز یہاں موجود رہیں تو وہ کانگرس ہندو اور وہ دوسرے لوگ ہیں جن کی نمائندگی کا کانگرس کو دعویٰ ہے‘‘۔گاندھی جیسے لیڈر کی اصلیت کو سمجھنے کیلئے بہت سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی تھی۔ اسی لئے قائداعظمؒ اکثر کہا کرتے کہ : ’’جو گاندھی کی زبان پر ہوتا ہے وہ دل میں نہیں ہوتا، اور جو دل میں ہوتا ہے وہ زبان پر نہیں لاتا‘‘
میں یہ حقیقت برملا واضح کردوں کہ قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نسل کو عملاً ہندوئوں کی منفی سوچ اور طرز عمل سے واسطہ نہیں پڑا لہذا ہمیں اس کا احساس کیسے ہوگا کہ برہمن کب کیا سوچے گا اور اس کا حقیقی رویہ کیا ہو گا۔ لہذا ان کی ظاہراً چالبازیوں سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں