کیا نوازشریف عبوری دور کے وزیراعظم ہیں؟ کیا جس اقتدار کیلئے انہوں نے چودہ سال (1999ء تا 2013ئ) تک انتظار کیا اور عوام نے انہیں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ وزیراعظم منتخب کیا ہے اس عوام کو دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچانے کے نوازشریف کے پاس کوئی حل نہیں ہے؟ یہ درست ہے کہ دہشت گردی کا گھمبیر مسئلہ چند ہفتوں میں حل نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی کیخلاف پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ملک کے سیکورٹی اداروں سے مل کر جنگ لڑی ہے۔ نوازشریف نے حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے اور گزشتہ 5 سال میں پنجاب کی حد تک اقتدار میں رہ کر دہشت گردی کے خوفناک مسئلے کا بھرپور طور پر جائزہ لے رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش آتا تھا تو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے حکومت کی دہشت گردی کیخلاف ناقص کارکردگی کی بھرپور مذمت کی جاتی تھی۔ اب نوازشریف خود وزیراعظم ہیں اور انکے دور میں دہشت گردی کے واقعات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ڈیرہ اسمٰعیل خاں کی جیل سے دو سو خطرناک دہشت گردوں کو چھڑا کر لے جانا اور اب کوئٹہ میں پولیس کے اعلیٰ افسروں کا بھیانک قتل معمولی واقعات نہیں ہیں۔ جب سے مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی ہے شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب دہشت گردی کی لرزہ خیز واردات نہ ہوئی ہو۔ مگر ابھی تک نوازشریف حکومت قوم کے سامنے یہ واضح نہیں کر سکی کہ دہشت گردی کے عفریت سے قوم کو نجات دلانے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے پاس پیپلز پارٹی سے مختلف کون سا پروگرام ہے۔ سب سے پہلے تو نوازشریف حکومت کو قوم کو اعتماد میں لے کر یہ بتانا ہو گا کہ اُن کے نزدیک دہشت گردوں کی طرف سے خودکش حملوں کے ذریعے پاکستان کے بے گناہ، معصوم اور مظلوم شہریوں کو انتہائی بے رحمی سے قتل کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا یہ درست نہیں کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون طیاروں سے بمباری کے ردعمل میں دہشت گرد پاکستان کے بے گناہ عوام کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور سے اس کام کا آغاز ہوا ہے کہ امریکہ جنہیں دہشت گردوں کا نام دے کر ڈرون حملوں یا دوسرے طریقوں سے قتل کرتا ہے اُس کے بدلے میں پاکستان کے شہری، ہماری افواج، پولیس اور رینجرز کے افسر اور اہلکار شہید ہو رہے ہیں۔ جب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے امریکہ افغانستان میں داخل نہیں ہوا تھا اور جب تک افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم امریکہ کے حلیف نہیں بنے تھے اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں آیا تھا۔ اگر جنرل پرویز مشرف امریکہ سے خوفزدہ ہو کر دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کو ملوث نہ کرتے تو افغانستان کی آگ کبھی ہمارے ملک میں منتقل نہ ہوتی۔ بصرہ و بغداد کو امریکہ نے برباد کیا پھر وہ افغانستان میں گھس آیا اور پاکستان کو بھی افغانستان کے اندر طالبان کے خلاف جنگ میں گھسیٹ لیا۔ اب پورا پاکستان دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ پاکستان میں دونوں طرف مسلمان اور پاکستانی قتل ہو رہے ہیں۔ ہم خود ہی قاتل اور خود ہی مقتول ہیں۔ پاکستان کا بدترین دشمن انڈیا بھی ان حالات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ دہشت گردی کی جتنی ہولناک وارداتیں پاکستان میں ہو رہی ہیں اس میں بھارتی گماشتوں کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ امریکہ اگر پاکستان کا دوست ہوتا تو وہ انڈیا کو یہ کردار ادا کرنے سے روک سکتا تھا۔
پاکستان کو اب تک دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں حلیف ہونے کے باعث جو نقصان پہنچ چکا ہے اس کی تلافی شاید آئندہ پچاس سال میں ممکن نہ ہو۔ اس جنگ نے پاکستان کے وجود تک کو خطرے میں ڈال رکھا ے۔ اس کے صلے میں امریکہ نے ہمیں کیا دیا ہے؟ پھر کیا یہ نوازشریف حکومت کا فرض نہیں بنتا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرویز مشرف کے دور کی جاری پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور صرف وہ قدم اٹھایا جائے جو پاکستان کی قومی سلامتی کے مفاد میں ہو۔ نوازشریف عبوری دور کے وزیراعظم نہیں ہیں اس لئے اُن کو پاکستان کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف اپنی ٹھوس اور واضح حکمت عملی فوری طور پر قوم کے سامنے پیش کرنی چاہئے۔ اگر نوازشریف نے بھی جنرل پرویز مشرف اور صدر آصف علی زرداری کے دور کی پالیسیوں کو جاری رکھا تو اس کے نتائج بھی ویسے ہی خطرناک ہوں گے جتنے دونوں سابقہ حکومتوں کے دور میں دہشت گردوں کے ہاتھوں پاکستانیوں نے بھگتے ہیں۔
مجھے تو خوف آنے لگا ہے کہ جتنی آسانی اور دیدہ دلیری سے دو سو کے قریب انتہائی خطرناک مجرموں کو انکے ساتھی دہشت گردوں نے جیل پر حملہ کر کے چھڑا لیا ہے۔ یہ دہشت گرد کل وزیراعظم ہائوس میں بھی داخل نہ ہو جائیں۔ دہشت گردوں نے ملک سے حکومت کی رِٹ کو ختم کر دیا ہے اور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ حکومت کہاں ہے؟ تو پھر ہمارا وزیراعظم ہائوس بھی کب تک محفوظ رہے گا۔ بہرحال ہمیں دوسروں کی آگ سے جان چھڑانے کے ایسے فیصلے کرنا ہوں گے جس سے ثابت ہو جائے کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے۔ اور اسکے حکمران غیرت مند اور بہادر ہیں۔