یہ گزشتہ ساٹھ کی دہائی کا زمانہ تھا۔ جمال عبدالناصر مصر کے نہ صرف مطلق العنان صدر تھے، پوری عرب دنیا میں ان کا نام اور مقام تھا۔ تو دنیا بھرمیں ان کی پہچان یہ بھی تھی ۔ کہ وہ اس وقت کی مصروف بین الاقوامی تنظیم نان الائنڈ موومنٹ کے بانیوں میں سے تھے جو ایک متعدل تنظیم تھی۔ جو آج بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ اس دوران 1976ءمیں جب عرب اسرائیل جنگ چھڑی اور مصر کو اسرائیل کے ہاتھوں بد ترین شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی، تو جمال عبدالناصر جیسے مضبوط حکمران شخصیت کی حیثیت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ پورے مصر میں ان کے خلاف ارتعاش اور اشتعال پھیل گیا۔ تو پیشتر اس کے کہ عوام ان کا گھیراﺅ کر کے قصر صدارت سے کھینچ کر باہر نکالتے وہ خود قومی میڈیا پر آئے اور قومی سے مخاطب ہو کر اس شکست کی ذمہ داری قبول کی۔ اور ملک کی صدارت سے استعفی دے کر اپنے آپ کو عوام کے حوالے کر دیا کہ وہ جو چاہئیں انہیں اس کی سزا دیں۔ ان کے اس خطاب کے بعد پورے مصر کا نقشہ بدل گیا۔ شکست کے غم سے نڈھال اس قوم کے تیور ہی بدل گئے لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ اور جمال عبدالناصر کو استعفی واپس لینے پر مجبور کر دیا یہ ہے بڑے لیڈروں کا وژن یہ واقعہ آج ہمیں اس لئے یاد آ رہا ہے کہ 17 جون کو جب ہمارے ہاں سانحہ ماڈل ٹاﺅن لاہور وقوع پذیر ہوا جس میں 14 مصوم لوگوں کی جانیں گئیں نوے کے قریب نہتے لوگ ناحق پولیس کی گولیوں سے چھلنی ہوئے۔ تو یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور اس پر ستم یہ ہوا اس بربریت کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کے لئے تیار نہ تھا۔ اور حکومت اور متاثرین میں ایک دوسرے پر طرح طرح کی الزام تراشی کا لامتاعی سلسلہ چل نکلا اور بجائے اس کے کہ اسے قانونی تقاضوں کے پیش نظر مناسب طریقہ سے سلجھایا اور نپٹایا جاتا اسے سیاسی رنگ دے کر اس قدر الجھایا گیا کہ پورا ملک ایک نہ ختم ہونے والے انتشار کا شکار ہو گیا اور حالات اس انتہا پر پہنچ گئے کہ اس سے آگے ملک کی تباہی کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ تو ہم سوچتے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا میاں شہباز شریف جو صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ اس واقعہ کے ذمہ دار ہیں یا نہیں صوبے کے چےف ایگزیکٹو ہونے یعنی منتظم اعلیٰ ہونے کے ناطے اس کی ذمہ داری قبول کرتے اور وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفی دے دیتے تو ہمیں یقین ہے ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوتا اور عین ممکن ہے لوگ انہیں اس صورت حال میں استعفی واپس لینے پر مجبور کر دیتے بالکل اسی طرح جس طرح مصر کے لوگوں نے جمال عبدالناصر کو مجبور کیا تھا اور ایسا نہ بھی ہوتا تو ان کا کچھ نہ بگڑتا کہ وہ اپنی جگہ اپنی پارٹی میں سے دوست محمد کھوسہ کی طرح کا ایک وزیر اعلیٰ بٹھا دیتے تو اقتدار پھر بھی ان کے ہاتھ رہتا وہ مستقبل کے ایک بڑے قومی لیڈر بن کر سامنے آتے لیکن افسوس وہ ایسا نہ کر سکے کہ شاید وہ جمال عبدالناصر جیسا وژن اور جرات نہیں رکھتے تھے۔ اور پھر یہی ہوا کہ ناداں گر گیا سجدے میں جب وقت قیام آیا اور معاملات کو اس قدر طول دیا گیا کہ یہ Inihatine بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہمیں یہاں یہ بھی اعتراف ہے کہ میاں شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کام، کام اور کام کی زندہ تابندہ تصویر بنے ہوئے تھے اور اپنی لگن اور شبانہ روز محنت اور دیانت سے وہ نام کمایا جو ان سے پہلے شاید ہی کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ نے حاصل کیا ہو اور سچ تو یہ ہے وہ پاکستان بھر کے تمام صوبوں کے وزرا اعلیٰ کے لئے ایک رول ماڈل بن چکے تھے لیکن آزمائش کے اس مقام پر وہ ایسے لڑکھڑائے ہیں کہ اب ان کا اس مقام پر واپس آنا مشکل نظر آ رہا ہے اب جب کہ ان کے خلاف 14 لوگوں کے قتل اور کئی لوگوں کو گولیاں مار کر زخمی کرنے کے الزام میں FIR کٹ چکی ہے یہ بھی بعید نہیں اگلے چند روز میں ان کا استعفی بھی آجائے تو وہ اس صورت حال سے کیسے اور کیونکر عہدہ برا ہوتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا اور ہمیں یہ جو آج نظر آ رہا ہے تو یہی کہ انہیں اپنی ناقص حکمت عملی اور کمزور قوت فیصلہ کے وجہ سے ڈنڈے بھی کھانے پڑ رہے ہیں تو....
کہ ناداں گرگیا، سجدے میں، جب وقت قیام آیا
Sep 01, 2014