رفیق تارڑ قدم بڑھاﺅ....

معروف مسلم مورخ و بابائے عمرانیات ابن خلدون نے ”العصبیہ“ کی تھیوری پیش کی جس کے مطابق تعصب یعنی عصبیت کو قوموں کی بقا کے لئے انتہائی اہم قرار دیا گیا ہے، جس کی وضاحت ہم یوں کر سکتے ہیں جیسے انسانی جذبات میں حسد، غصہ، طمع،صنفی کشش وغیرہ جیسے سفلی جذبات منفی ہی نہیں بہت سے مثبت پہلو بھی رکھتے ہیں حسد جسے مثبت ہو تک رشک کہا جاتا ہے یہ نمایاں ہونے اور دوسروں سے آگے بڑھنے کا جذبہ ہے۔ غصہ ہماری انا غیرت اور جذبہ ایمانی کے لئے ضروری ہے۔
بالکل ایسے ہی عصبیت بھی منفی اور مثبت دونوں پہلو رکھتی ہے۔ اسلام نے رنگ و نسل خاندان برادری اور مالی جاہ و حشمت کی عصبیت کی پرزور مذمت کی ہے لیکن ہمارا اسلام جیسے مکمل ضابطہ حیات دین کے پیروکار ہونے پر فخر جس قدر مضبوط و مستحکم ہو گا اسی قدر ہم اس سے وابستگی اور ترویج کے لئے کمٹڈ ہوں گے۔
ایسے ہی جس قدر ہمیں پاکستان جیسے اسلامی جمہوری وطن کے شہری ہونے پر ناز ہو گا اسی قدر جذبہ حب الوطنی پروان چڑھے گا ہم پاکستانیت کے لئے قلب و جاں سے کام کریں گے۔ یہی قومی عصبیت جذبہ حب الوطنی جسے میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ اس کا دوسرا نظام نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ ہے اور یہ ازل سے شرار بولہبی اور چراغ مصطفوی کے مابین ستیزہ کاری کی شکل میں جاری ہے اور رہتا ہے۔ سو جس قدر ہم اپنی نظریاتی وابستگی کو مضبوط تر کرتے چلے جائیں گے ہم مضبوط ترین ہوتے جائیں گے۔
ہماری خارجی و داخلی دشمن قوتوں نے ہم سے زیادہ نظریاتی طاقت و قوت کی نزاکت و اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ اسی لئے وہ پورے زور شور سے ہماری نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہو چکی ہیں وہ جانتی ہیں جغرافیائی سرحدوں کو عبور کرنا ایک جذبہ ایمانی سے لبریز مشاق فوج کی موجودگی میں مشکل ہے جناب ڈاکٹر مجید نظامی کی بصیرت افروز نگاہیں اور ان کے فہم و ادراک کا علو اس سے خبردار تھا۔ وہ جغرافیائی سرحدوں کی سپہ سالاری کے لئے منتخب کیا اور انہوں نے اس پر پہریداری کا حق ادا کر دیا۔
آج جیسے ہمارے انتہائی حساس مقامات ریڈ زون پر طاﺅس و رباب ٹھمکہ پارٹیوں کا قبضہ اور اس پر قوم کا شدید ردعمل آنے کی بجائے کئی لوگ اور مخصوص میڈیا بڑی حوصلہ افزا کوریج دے رہا ہے۔ جبکہ پوری قوم حیرت سے انگشت بدنداں ہے۔ یہ بحران یہ پریشانیاں مجید نظامی مرحوم کے فلسفہ فکر و عمل کی نافرمانی کی سزا ہے۔
اگر آج قومی نظریاتی اساس مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی کیسے جرات تھی کہ وہ ٹھمکوں کے زور پر حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا۔ ان حالات میں جناب نظامی مرحوم کے مشن اور وژن کا خلا تو شائد پورا نہ ہو سکے لیکن یہ اچھا موقع ہے کہ ارباب دانش قوم کی اس کمزوری کی نشاندہی کریں اور نظامی صاحب مرحوم نہ صرف نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور کارکنان تحریک پاکستان کی شکل میں بشمول نوائے وقت و وقت چینل جو ادارے قائم کر گئے ہیں
بلکہ وہ کثیر تعداد میں اپنے تربیت یافتہ ایسے کئی افراد چھوڑ گئے ہیں جو بذات خود ادارہ ہیں۔ جیسے اب ان کی جانشینی کا شرف بطور چیئرمین پاکستان ٹرسٹ جناب محمد رفیق تارڑ اور ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز رمیزہ نظامی صاحبہ منتخب ہوئے ہیں جہاں ان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے قوم کے لئے بھی بہت اچھی چیز ہے ۔
اس حسن انتخاب سے امید بندھی ہے کہ نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کی ترویج و ترقی کا یہ سفر تیزی سے جاری ہو گا۔ میں یہ ذاتی تجربہ مشاہدہ کی بنیاد پر بلامبالغہ تحریر کر رہا ہوں کہ وائس چیئرمین ڈاکٹر رفیق احمد، فاروق الطاف، سید شاہد رشید، رفاقت ریاض، نعیم احمد، عابد حسین شاہ، محمد سیف اللہ چودھری، پروفیسر سعید احمد شیخ، محمد حنیف شاہد صاحبان کی رفاقت مخلص محنتی اور اپنے نظریہ و فرائض سے کمٹڈ ٹیم کی ہے۔ ان کا اب بھی وقت ہے اب نظامی صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان ہی کو قائم رکھا جائے وہی اس کے قیام و استحکام کے ضامن ہیں۔ جانشین ڈاکٹر مجید نظامی، رفیق تارڑ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قدم بڑھاﺅ اللہ تمہارے ساتھ ہے۔

ای پیپر دی نیشن