سانحۂ اسلام آباد پر منتج ہوتی عمران و قادری کی تخریبی سیاست، جاوید ہاشمی کے انکشافات اور ہنگامی کور کمانڈرز میٹنگ…کیا تاریخ میں ہمارا پھر سرزمین بے آئین ہونا لکھا جا چکا ہے؟

Sep 01, 2014

اداریہ

انقلاب، آزادی مارچ اور دھرنوں کے زور پر عوام کو سسٹم کی تبدیلی کے سہانے خواب دکھانے والے عمران خان اور طاہر القادری نے اپنی اڑھائی ہفتے کی انتھک ’’جدوجہد‘‘ سے بالآخر اس ملکِ خداداد اور اس میں رائج دستوری نظام کو ان خطرات کے حوالے کر دیا ہے جو ماضی میں بھی سیاستدانوں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کی باعث ملک کو سرزمین بے آئین میں تبدیل کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ روز تحریک انصاف کی ہائی کمان کی حکومتی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات میں حتمی چارٹر آف ڈیمانڈ کا مسودہ طے کرنے اور اس پر جواب کیلئے حکومت کو ایک دن کی مہلت دینے کے بعد ہفتے کی شب عمران خان نے اچانک اپنے دھرنے کے شرکاء کو پارلیمنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس کی جانب پیش قدمی کرنے اور دھاوا بولنے کا حکم دے دیا جس کے بعد طاہر القادری نے بھی پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق اپنے دھرنے کے شرکاء کو پُرامن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے وزیراعظم ہائوس اور پارلیمنٹ ہائوس کے اندر دھرنا دینے کا حکم دیا جبکہ اس دھرنے کے شرکاء کی اکثریت ڈنڈوں، لاٹھیوں، غلیلوں، ہتھوڑوں اور کٹرز سے لیس تھی اور یہ لوگ اپنے ساتھ ایک کرین بھی لائے ہوئے تھے جس کی مدد سے وہ سارے کنٹینر اور دوسری رکاوٹیں ہٹا کر اور حفاظتی باڑ کاٹ کر پارلیمنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس تک آ گئے جس کے بعد انہوں نے ایک ٹرک کی مدد سے پارلیمنٹ ہائوس کا جنگلا توڑ دیا اور زبردستی پارلیمنٹ ہائوس کے اندر گھس گئے۔ اس صورتحال میں پارلیمینٹ ہائوس، وزیراعظم ہائوس اور دوسری اہم عمارتوں کی حفاظت کیلئے مامور پولیس اور ایف سی کے دستوں کو ردعمل میں ناخوشگوارکارروائی پر مجبور ہونا پڑا جس کیلئے عمران خان اور طاہر القادری گزشتہ دو ہفتے حکمرانوں کو للکارے مارتے، اشتعال ابھارتے ہوئے فضا بنا رہے تھے۔ انہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پہلے آنسو گیس اور پھر ربڑ کی گولیاں استعمال کیں اور پھر بے قابو مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا چونکہ عمران خان اور طاہر القادری نے دھرنے میں شریک خواتین اور ان کے بچوں کو ڈھال بنایا ہوا تھا اس لئے سب سے زیادہ خواتین اور بچے ہی اس پولیس ایکشن کی زد میں آئے۔ چنانچہ اتوار کی شام تک مظاہرین اور پولیس کے مابین وقفے وقفے سے جاری جھڑپوں اور مظاہرین پر آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں کے استعمال اور لاٹھی چارج سے پانچ سو سے زائد مظاہرین زخمی ہوئے جن میں سے شدید زخمی تین افراد دم توڑ گئے، زخمی ہونے والوں کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اس پولیس ایکشن کے ردعمل میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے ملک بھر میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا اور لبرٹی چوک لاہور میں بھی پولیس پر حملہ آور ہو کر اسے تشدد پر اُکسایا۔ شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ہائوس کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے وہاں موجود درختوں اور پودوں کو بھی آگ لگا دی اور ایک پولیس وین کو بھی آگ کے حوالے کر دیا جبکہ وہ پولیس پر مسلسل پتھراؤ بھی کرتے اور غلیلوں سے بھی حملہ آور ہوتے رہے۔ مظاہرین کے ان تخریبی اقدامات کے باوجود پولیس نے وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر ان پر فائرنگ سے گریز کیا اور اس طرح زیادہ جانی نقصان کو بچا لیا گیا۔ پولیس اور مظاہرین دونوں نے پیشہ ورانہ فرائض ادا کرنے والے صحافیوں، کیمرہ مینوں اور عملے کے دوسرے ارکان کو بھی نہ بخشا جو پولیس لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی زد میں بھی آئے اور مظاہرین کے تشدد کا بھی نشانہ بنے۔ مظاہرین نے ایک میڈیا گروپ کی عمارت پر حملہ کر کے اندر گھسنے کی بھی کوشش کی جبکہ آنسو گیس کے شیل لگنے اور مظاہرین کے تشدد سے وقت ٹی وی کی ڈی سی این جی کا ڈرائیور اور تین کیمرہ مین بھی زخمی ہوئے۔ اس پُرتشدد تحریک اور اس کے باعث پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے نتیجہ میں اس وقت پورے ملک میں سراسمیگی کی فضا قائم ہو چکی ہے، حکومتی انتظامی مشینری مفلوج نظر آتی ہے اور حالات خانہ جنگی کا رُخ اختیار کرتے محسوس ہو رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس غیر یقینی کی صورتحال کا جائزہ لینے اور کوئی لائحہ عمل طے کرنے کیلئے آج بروز پیر کور کمانڈرز کی جو ہنگامی کانفرنس طلب کر لی گئی تھی اس کا چھٹی کے باوجود اتوار کے روز ہی انعقاد ضروری سمجھا گیا چنانچہ اس کانفرنس کے فیصلوں سے بھی اب تک قوم آگاہ ہو چکی ہو گی۔ 
عمران خان کی جانب سے حالات اس نہج تک لے جانے کے پیچھے کیا مقاصد اور کس کی سوچ کارفرما تھی اس کا بھانڈہ تحریک انصاف کے مرکزی صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے ذریعے بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے جنہوں نے حکومت کو مظاہرین پر پولیس تشدد فی الفور بند کرنے کی تلقین کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے ساتھ حکومتی ٹیم کے مذاکرات میں معاملات طے پا گئے تھے اور ایک حتمی چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کر کے حکومت کو بھجوا دیا گیا تھا جس پر جواب کیلئے حکومت کو ایک دن کی مہلت دی گئی اور اس دوران دھرنے کو آگے نہ لے جانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ عمران خان نے شاہراہ دستور سے آگے نہ جانے کی خود یقینی دہانی کرائی مگر پھر یکایک عمران خان نے ہمیں کہا کہ اب ہم دھرنے کو وزیراعظم ہائوس اور پارلیمنٹ ہائوس کے اندر لے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی جب شیخ رشید اور سیف اللہ ان کے پاس آ کر ان کے کان میں کوئی بات کہہ گئے تھے۔ جاوید ہاشمی کے بقول انہوں نے عمران خان سے کہا کہ ہم نے ابھی حکومت کو ایک دن کی مہلت دی ہے اور آگے نہ جانے کا کا یقین دلایا ہے اس لئے ہمیں مزید آگے نہیں جانا چاہئے جس پر عمران خان نے انہیں جواب دیا کہ اب مجبوری آ گئی ہے اس لئے ہمیں آگے جانا ہو گا، آپ کو ہمارے اس فیصلے سے اختلاف ہے تو آپ بے شک واپس چلے جائیں۔ جاوید ہاشمی کے بقول انہوں نے عمران خان کو اس فیصلے سے روکا اور کہا کہ آپ کم از کم کور کمیٹی سے اس کے پہلے فیصلے پر نظرثانی کروا لیں جس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ لیڈر میں ہوں اس لئے آپ کو میرا فیصلہ ماننا ہو گا۔ جاوید ہاشمی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ طاہر القادری پارلیمنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس کی جانب نہیں جانا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے یہ شرط لگا دی کہ پہلے تحریک انصاف کا دھرنا پیش قدمی کرے گا اور اس کے بعد ہم جائیں گے۔
اگر جاوید ہاشمی کے یہ انکشافات درست ہیں تو عمران اور قادری کی دھرنا سیاست کے پس پردہ مقاصد اور محرکات بھی بخوبی سمجھ  آ جاتے ہیں کہ عمران خان کو دھرنے کے شرکاء کو پارلیمنٹ ہائوس اور وزیراعظم ہائوس کے اندر لے جانے کی مجبوری کیوں لاحق ہوئی جبکہ مظاہرین کی جانب سے تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ان کے پارلیمنٹ ہائوس کے اندر گھسنے میں کامیاب ہونے تک ان اہم عمارتوں کی حفاظت کیلئے تعینات پاک فوج کے دستے ٹس سے مس نہ ہوئے اور مظاہرین کو روکنے کیلئے ایک قدم بھی نہ اٹھایا حالانکہ حکومت کی جانب سے آئین کی دفعہ 245 کے تحت ان عمارتوں کی حفاظت کیلئے ہی افواج پاکستان کی معاونت حاصل کی گئی تھی۔ یہ سارے معاملات اور عمران و قادری کی دھرنا تحریک کے جاوید ہاشمی کی زبانی افشا ہونے والے پس پردہ مقاصد اتنے روح فرسا اور اذیت ناک ہیں کہ ملک کی بقا و استحکام اور آئین و قانون کی عملداری کیلئے فکرمند عوام سکتے میں آئے نظر آتے ہیں اور یہ سوچ مزید ذہنی اذیت کا باعث بن رہی ہے کہ ہمارے خود غرض اور مفاد پرست سیاستدانوں نے ماضی کی غلطیوں سے آج بھی سبق حاصل نہیں کیا اور وہ پہلے ہی کی طرح اپنی خود غرضیوں کے تابع سسٹم کی بساط لپیٹنے والے ماورائے آئین اقدامات کی راہ ہموار کرنے کیلئے اپنی ’’بے لوث‘‘ خدمات پیش کرنے پر آمادہ و حاضر ہیں۔ اگر ان کی یہ خود غرضی قائداعظم کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں تشکیل پانے والے اس ملک خداداد کا چہرہ پھر سرزمین بے آئین والا بنا دیتی ہے تو کیا ہماری تاریخ ایسی غلطیوں پر سر پیٹنے کے مناظر ہی دکھاتی رہے گی؟ اس تخریبی سیاست کی پیدا کردہ صورتحال میں اب یہ نتیجہ اخذ ہونے میں کوئی دقت نظر نہیں آتی کہ قوم کو ادارہ جاتی کشیدگی اور تصادم کیلئے بیچ چوراہے میں کھڑا کر دیا گیا ہے اور اب حکومت اور عسکری اداروں کو ایک دوسرے پر قطعاً اعتماد نہیں رہا۔ اس کھیل تماشے میں آرمی چیف کے کردار کے حوالے سے جو کھچڑی پک رہی تھی وہ اب اُبال دیتی نظر آ رہی ہے۔ ممکن ہے اب جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد اصل مقاصد کا حصول کچھ دنوں کیلئے مؤخر ہو جائے مگر اس وطن عزیز کا پھر سرزمین بے آئین بننا مقدر میں لکھا نظر آ رہا ہے یقیناً اسی خطرے کو بھانپ کر آج پوری پارلیمنٹ اور عدلیہ آئین کے تحفظ کے عزم کا اظہار کر رہی ہے جبکہ پارلیمنٹ میں تقریباً تمام پارلیمانی لیڈران کی جانب سے وزیراعظم پر ہرگز مستعفی نہ ہونے کیلئے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف خود بھی آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کے تحفظ و دفاع کیلئے پارلیمنٹ کے فیصلہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور کوئی دبائو قبول نہ کرنے کیلئے پُرعزم نظر آتے ہیں۔لیکن اس عزم کی جھلک وزیراعظم کی جانب سے اتوار کی شام دیئے گئے کمنٹس میں بھی انقلابی تحریکوں کی جانب تضحیک آمیز لہجہ کی صورت میں نظر آئی جو صورت حال کو کنٹرول میں لانے کی بجائے مزید اشتعال کی طرف لے جا سکتی ہے۔ ڈی چوک کی کارروائی کے دوران اور اس کے بعد بھی حکومتی عہدیداران غائب ہیںاور وزیر اعظم کی خاموشی غیر تسلی بخش ہے۔ البتہ وہ اتوار کی شام ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے نظر آئے۔ اب جبکہ معاملات کسی کے کنٹرول میں معلوم نہیں ہوتے اور اسمبلیوںکو تحلیل کرنے کی افواہیں گردش کر رہی ہیںوزیر اعظم کا قوم سے خطاب لازمی ہے۔ انہیں پاکستان میں جمہوریت کی بقا کے لئے چپ کا روزہ رکھنے کی بجائے عوام کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس وقت سب سے اونچی آوازیں عمران خان، طاہر القادری اور ایم کیو ایم کی ہیں اگر خود غرض سیاستدانوں نے ہمیں ماضی جیسے اس سانحے سے ہی دوچار کرنا ہے اور ایک منتخب حکومت حالات کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے تو پھر پوری قوم کو اب ملک کی سلامتی کیلئے فکرمند ہونا چاہئے۔ خدا پاکستان اور اس کے حکمرانوں رہنمائی کرے۔

مزیدخبریں