پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات چاہتے ہیں اسکے سوا کوئی چارہ نہیں : وزیراعلی مقبوضہ کشمیر

سرینگر (کے پی آئی) مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلی عمر عبداللہ نے پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹری مذاکرات کی منسوخی کے فیصلہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ بات چیت کے سوا کوئی چارہ نہیں،  مذاکرات مسائل کا واحد حل ہیں۔  آج حریت پسندوں کے اس چائے کے کپ پر بات چیت بند کی گئی جو وہ گزشتہ 20برسوں سے پیتے آرہے ہیں۔  علیحدگی پسندوں کو پاکستانی ہائی کمیشن پر بلانے کا سلسلہ سابق وزیراعظم نر سیما رائو کے زمانے سے شروع ہوا لیکن  بات چیت کا سلسلہ بند نہیںہوا ۔کٹھ پتلی اسمبلی  کے اجلاس میں عمر عبداللہ نے پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں حملوں کے بعد بات چیت بند ہوئی اور مذاکرات کی بحالی کیلئے شرائط عائد کی گئیں تاہم پاکستا ن نے وہ شرائط پوری نہ کیں لیکن اس کے باوجود بات چیت شروع ہوئی اور آگے بڑھی، لہٰذا آج اس چھوٹے سے مسئلہ پر بات چیت ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ عمر عبداللہ  نے پاکستان بھارت مذاکرات کی بحالی کے حق میں قرارداد منظور کرنے پر ایوان بالا کو قوم دشمن قرار دینے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قوم دشمن اور محب وطن ہونے کا فیصلہ ایک ٹیلی ویژن اینکر کرتا ہے جو افسوسناک ہے۔  اگر ہم جنگ کی بات کرتے ہیں تو قوم پرست اور اگر بات چیت کی بات کرتے ہیں تو قوم کے دشمن تصور ہوتے ہیں۔
اس اینکر کو ملک اور ریاست کی سالمیت کیلئے جموں وکشمیر کے نمائندوںکی طرح اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کا کوئی تجربہ نہیں، یہاں کوئی دفعہ370کی منسوخی اور کوئی اس کی مضبوطی کی بات کرتا ہے، ہمیں خطرہ درپیش ہیں ،ذاتی محافظ مجبوری کی وجہ سے رکھے ہیں ،اس اسمبلی پر حملہ ہوا جس میں کم از کم30لوگ مار ے گئے ،تو کیا یہ قوم دشمنی کا ثبوت ہے۔وزیراعلی نے کہا کہ ہمیں صرف اس لئے قوم دشمن قرار دیا جارہا ہے کیونکہ ہم بات چیت چاہتے ہیںاور بات چیت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ دوسرا کون سا راستہ ہے؟ کیا ہم یہ کہیں جنگ کی جائے اور فوجیوں اور شہریوں کی زندگی خطرے میں ڈالی جائے تومذکورہ اینکر ہمیں قوم پرست قرار دے گا؟۔اگرہم جنگ کی بات کرتے ہیں تو ہم قوم پرست ہیں اور اگر بات چیت کی بات کرتے ہیںتوقوم دشمن ۔ انہوںنے دعوی کیا کہ ریاست میں امن و مان کی صورتحال میں بہتری واقع ہوئی ہے ۔ اس ضمن میں وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ گذشتہ ساڑھے پانچ برس کے دوران ملی ٹینسی سے جڑے واقعات میں 80فیصد کمی ہوئی۔
کٹھ پتلی  وزیراعلی

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...