ہمارے آئین اور قانون میں اس بات کی اجازت ہے کہ کوئی بھی ممبر قومی اسمبلی، سینئر، وزیر یا کوئی بھی عہدیدار اپنے عہدے سے ذاتی وجوہ کی بنا پر جب چاہئے مستعفی ہو سکتا ہے۔ یہ نہایت جمہوری حق ہے کہ اگر کوئی رکن ذاتی علالت یا مصروفیات کے باعث اپنے عہدے سے کماحقہ، عہدہ برآء نہیں ہوسکتا تو وہ اپنے اور قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی ذمہ داریوں سے رضا کارانہ طور پر سبکدوش ہوجائے۔ یہ حق استعفیٰ فقط سیاسی عہدیداروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر سرکاری و غیر سر کاری عہدیدار اپنے اس حق کو آزادانہ طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ اس حد تک تو ہم ہر خاص و عام بشمول اراکین اسمبلی کے حق استعفیٰ کو بصد قلب و جاں تسلیم کرتے ہیں البتہ استعفوں کے سیاسی کھیل کے بارے میں عوام الناس کے کچھ تحفظات ہیں جن کا اظہار ازحد ضروری اور قابل توجہ ہے۔
گزشتہ برس بھی عوام نے دیکھا کہ ایک سیاسی جماعت کے قومی اسمبلی سے استعفوں نے ایک مدت تک ملکی سیاست میں اژدھام مچائے رکھا۔ ابھی وہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھا ہی تھا کہ ایک اور سیاسی جماعت نے استعفوں کو حکم کا ’’یکا‘‘ سمجھتے ہوئے آخری پتے کے طور پر پھینکا ہے تاکہ بازی اپنے نام کی جاسکے۔ اب پھر بحث مباحثے ہونگے۔ ہر کوئی اپنے اپنے مفاد کے مطابق راگ الاپے گا۔ پھر قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر نئے نئے اتحاد بنیں گے، نئے نئے Compromises ہونگے، کچھ لو کچھ دو کی پالیسی ہوگی۔ مصنوعی مسکراہٹوں کے تبادلے ہونگے۔ منافقانہ چالیں چلی جائیں گی۔ پہلے بھی ایسا ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ اس سارے عمل میں پاکستانی اور پاکستانی عوام کے حقیقی مسائل سرد خانے کی نذر رہیں گے۔ عوام کی اکثریت کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کس کے استعفے منظور ہوتے ہیں اور کس کے نہیں ہوتے۔ وہ تو بے چاری ایک مرتبہ اوپر بیان کئے گئے انتخابی عمل کے مسائل سے گزر کر اپنے نمائندوں کو آس لگائے ایوانوں تک بھیجتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ یہ اب پانچ برس تک ہمارے دئیے گئے مینڈیٹ کے مطابق ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ہونگے۔ مگر ہوتا بالکل اس کے برعکس ہے جس پر عوام کے دل و دماغ میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ مگر ان کی آواز بالاخانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ انسانی رویوں میں غم و غصہ افسوس سے اگلی کیفیت کا نام ہے اگر تو عوامی نمائندگان عوامی مینڈیٹ کے مطابق ذمہ داریوں سے بطریق احسن عہدہ برآر نہیں ہوتے تو عوام کے لئے یہ افسوس کا مقام ہے تاہم ہمارے عوام افسوس کی اس کیفیت کے عادی ہوچکے ہیں لہٰذا اب افسوس کی یہ کیفیت بھی چنداں قابل افسوس نہیں رہی بلکہ اب تو عوامی افسوس غم و غصہ میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے کہ جب عوامی مینڈیٹ کی توہین کی جارہی ہو۔
آپ کو یاد ہوگا ملتان سے ایک معزز رکن اسمبلی نے ببانگ دہل استعفیٰ دے دیا اور پھر ڈیڑھ ماہ بعد اسی نشست کے لئے پھر میدان میں اتر آئے لہٰذا پھر ملتان کے عوام کو اسی مرحلے سے دوچار ہونا پڑا جس سے وہ گزر چکے تھے تاہم اس مرتبہ وہ صاحب ہار گئے کہ عوام کے پاس غم و غصہ کے اظہار کے لئے اس سے بہتر کوئی طریقہ نہ تھا۔ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا کہ جو رکن یا اراکین سیاسی بلیک میلنگ کے طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونگے انہی نشستوں پر ضمنی انتخابات میں بھی وہی امیدوار دوبارہ مقابلے میں اتر آئیں گے اگر انہیں پھر سے اسمبلیوں میں واپس جانے کی حسرت ستاتی ہے تو پھر مستعفی ہونے کا کیا مطلب؟ بہر حال اس بات سے قطع نظر کہ کسی رکن اسمبلی کے مستعفی ہونے میں کوئی سیاسی چال ہے یا نہیں کوئی پوائنٹ سکورنگ ہے یا در پردہ کچھ اور حقائق کار فرما ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ سیاسی دھمکی کی صورت میں پیش کئے جانے والے استعفے ایک طرف تو عوامی مینڈیٹ کے ساتھ سراسر مذاق اور توہین ہے تو دوسری طرف کسی بھی جمہوری حکومت کے سر پر منڈلاتا ہوا ایک خطرہ ہے۔ جس کا ہر طور تدارک ضروری ہے۔ جمہوریت میں آزادی رائے اور اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کرنے کے دوسرے کئی طریقے مروج ہیں جس سے ہماری اپوزیشن جماعتیں اکثر استفادہ کرتی رہتی ہیں تاہم یہ سوچے بغیر کہ کون حکومت میں ہے اور کون اپوزیشن میں حقیقت یہ ہے کہ استعفوں کی بلیک میلنگ کا منہ زور گھوڑا جس سمت میں چل نکلا ہے آئندہ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ لاتعداد پریشر گروپ جنم لیں گے اور یوں کبھی بھی کسی بھی جمہوری حکومت کو سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس طوفان کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے جس کے لئے قومی اسمبلی میں قانون سازی درکار ہے جس میں بلاعذر دئے گئے استعفوں کی صورت میں ایسے اراکین یا رکن کا دوبارہ انہیں نشستوں کیلئے انتخاب لڑنا ممنوع قرار دے دیا جائے۔ فقط ایسا کردینے سے ہی آئندہ جمہوری حکومتیں ہر طرح کے پریشر گروپوں کے استعفوں کی دھمکیوں سے چھٹکارہ پالیں گی اور یوں نہ تو عوامی مینڈیٹ کی تذلیل ہوگی اور نہ ہی حکومتی مال و اسباب کا بے تحاشا و بے دریغ استعمال ہوگا…!