اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) صدر امریکہ کی مشیر برائے سلامتی سوزن رائس کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر پاکستان میں را کے ذریعہ بھارتی مداخلت کے کوئی ثبوت امریکہ کے حوالہ نہیں کئے گئے۔ یہ ثبوت وزیراعظم کے دورہ نیو یارک کے موقع پر اقوام متحدہ کے سپرد کئے جائیں گے۔ بھارت کے بارے میں ثبوت دینا ملاقاتی ایجنڈا کا حصہ ہی نہیں تھا۔ البتہ وزیراعظم نوازشریف نے سوزن رائس کو بھارتی طرز عمل، مذاکرات کی منسوخی اور کنٹرول لائن و ورکنگ باونڈری پر اشتعال انگیزیوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ ایک اعلیٰ سرکاری شخصیت کے مطابق امر یکہ کو بتایا گیا کہ 28 اگست کو بھارت نے جس وسیع پیمانہ پر فائرنگ اور گولہ باری کی اس سے اندیشہ پیدا ہو گیا کہ بھارت کچھ اور ہی کرنا چاہتا ہے۔ امریکیوں کو بھارتی عزائم کے بارے میں تشویش لاحق ہو گئی تھی۔ امریکی وفد کو بتایا گیا پاکستان کی ایک لاکھ ترانوے ہزار فوج فاٹا میں مصروف ہے۔ ان حالات میں پاکستان بھارت کے ساتھ کیوں چھیڑ چھاڑ کرے گا۔ بھارت کی یہ تھیوری بالکل غلط ہے کہ پاکستان کنٹرول لائن پر فائرنگ کر کے بندے اندر بھجواتا ہے۔ بھارت میں فیشن بن گیا ہے کہ ہر واقعہ پاکستان کے سر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے اور امریکی اس چیز کو سمجھتے ہیں۔ امریکہ کو بتایا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا دوطرفہ معاملہ قرار دے کر جان نہیں چھڑا سکتا۔ امریکہ کا عالمی قد کاٹھ اور اس خطہ میں ذمہ داریاں ہیں چنانچہ اسے پاک بھارت تعلقات میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے بتایا کہ صدر اوبامہ کے دورہ بھارت اور متعدد موقع پر امریکہ نے بھارت کو پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا اور ہر بار بھارت نے معاملہ کو دہشت گردی تک محدود کرنے کی کوشش کی۔ اس ذریعہ کے مطابق کنٹرول لائن پر فوج کو ہدایت ہے کہ ازحد تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی فائرنگ کے جواب میں ہلکے ہتھیار استعمال کریں۔ چنانچہ جواب دینے کا معاملہ بعض اوقات کور کمانڈر تک جا پہنچتا ہے۔ آپریشن ضرب عضب پر ایک اعشاریہ نو بلین ڈالر خرچ ہو چکے ہیں یہ خرچہ پاکستان نے اپنے پلے سے کیا۔ سوزن رائس کا دورہ خالصتاً وزیراعظم نواز شریف کے دو طرفہ دورہ امریکہ کی تیاری کے سلسلہ میں تھا۔ امریکہ کے پاکستان میں جمہوریت، توانائی، معیشت سلامتی اور متعدد دیگر شعبوں میں اہم مفادات وابستہ ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے پیسے تب ملیں گے جب کچھ کر کے دکھائیں گے۔ ممبئی حملوں پر نہ کوئی بات ہوئی نہ ممبئی کا لفظ استعمال ہوا۔ البتہ لشکر طیبہ کا موضوع ضرور زیرغور آیا۔